×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / اولاد کی نگرانی کا وجوب

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

خطبۂ اول: تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ امابعد!         سب سے بہترین بات اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین ہدایت رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت ہے۔ اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور اس بات پر اس ذات کا شکر ادا کر وجس کی شان بہت بلند ہے کہ اس نے تم پر اولاد کی نعمت کے ساتھ احسان کیا۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سےاولاد کی نعمت تم پر بہت بڑا فضل اور احسان ہے:   (( وہ جس کو چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے، لڑکے دیتا ہے، (۴۹)یا پھر ان کو ملاجلا کر لڑکے بھی دیتا ہے، اور لڑکیاں بھی، اور جس کو چاہتا ہے، بانجھ بنادیتا ہے۔ یقینا وہ علم کا مالک ہے، قدرت کا بھی مالک۔(۴۹))) اے مؤمنو!         اس نعمت کا بہت بڑا حق اور تاکیدی حکم ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں نعمت کے ذریعہ آزمایا ہے تاکہ وہ یہ جانے کہ تم شکر کرتے ہو یا ناشکری کرتے ہو؟ تمہاری اولاد چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں وہ تمہارے پاس امانت ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں ان کی حفاظت، نگرانی اور انہیں خرابی اور ٹیڑھ پن کے اسباب سے بچانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ سبحانہٗ  جن کا ذکر  بلند ہے وہ  فرماتے ہیں: (( اے ایمان والو!  اپنے  آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔اس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے  ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔))         لہٰذا اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اے مؤمنو!         شریعت کی نصوص میں غوروفکر کرنے والا یہ جان لیتا ہےکہ اولاد کی درستگی اور ان کا بگاڑ عام طور پر ان کےوالدین کی طرف لوٹتا ہے۔صحیحین کی حدیث حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، یا نصرانی یا مجوسی بناتےہیں۔ ‘‘         اللہ کے بندے تمہاری اولاد، چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی تمہاری محنت کا نتیجہ اور تمہاری تربیت کا پھل ہے، کیونکہ انہی  اصولوں پر درخت بڑھتے  ہیں۔ اے مؤمنو!         والدین پر لازم ہے اے مؤمنو۔ کہ وہ اپنی اولاد کو ابتدائی آداب کی چیزیں دیں، تاکہ ان کی اولاد ان سے اپنے بچپن میں ہی مانوس ہوجائے اور وہ بچپن سے ہی ان کے زیر تربیت پرورش پائیں،  تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو وہ آداب ان کی طبعیت کا حصہ بن جائیں، کیونکہ بچے کی  کسی چیز پر تربیت اسے اس کی طبعیت کا حصہ بنادیتی ہے:         ٹہنیوں کو جب سیدھا کریں تو وہ ٹھیک ہوجاتی ہیں                 اور نرم نہیں ہوتیں جب کہ انہیں لکڑی ٹھیک کرے         اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور اس سے پہلے اپنی اولاد  کو ادب سکھانے اور ان کی اصلاح میں جلدی کرو جب تمہاری فکریں زیادہ ہوجائیں،  پریشانی آجائے اور حالات کی تبدیلی مشکل ہوجائے۔         ان کو ادب سکھانے، انہیں اچھے اخلاق اور عادتیں سکھانے اور  برے اخلاق سے محفوظ بنانےکی جلدی کرو، کیونکہ کسی والد نے اپنی اولاد کو اچھی تربیت  سے بڑھ کر کوئی اچھا تحفہ نہیں دیا۔ لہٰذا مہربان والد جو اپنے دل کے ٹکڑے کی اصلاح کا شوق رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ہر بھلائی اور فضیلت کا حکم کرے اور ہر برائی اور بری بات سے روکے۔ انہیں ہر بھلائی کا شوق دلاؤ اور انہیں اس پر ابھارو اور انہیں برائی سے دور رکھو اور اس کی نفرت دلاؤ۔ جب اولاد چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی سمجھ بوجھ کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں نماز کا حکم کرنے، اس کا شوق دلانے اور اس پر ابھارنےمیں جلدی کرو، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ  فرماتےہیں: ’’ اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو اور دس سال کی عمر میں نماز کےلئے انہیں مارو۔‘‘         ایمان والوجان لو کہ بہت ساری اولاد کا نماز کو ضائع کرنے اور اس کا خیال نہ کرنے کا سبب والدین کا اس نبوی نصیحت پر عمل کرنے میں کمی کرنا ہے، لہٰذا اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اے مؤمنو!         اولاد کی اصلاح کا سب سے اہم سبب ان کی برے دوستوں اور شریر ساتھیوں سے حفاظت ہے جو اچھائیوں کو ختم کردیتے ہیں اور برائیوں کو پختہ کردیتےہیں، برائیوں کا حکم کرتے ہیں اور نیکیوں سےروکتےہیں، لہٰذا اپنی اولاد کی چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں ان کی اس طرح کے لوگوں کی صحبت سے حفاظت کرو، کیونکہ وہ آنکھ کی گندگی، عمر بھر کی مصیبت اور دنیا اور آخرت کی نحوست ہیں: ((اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، سوائے متقی لوگوں کے۔))         لہٰذا  اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سےہر ایک سےاس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اے مؤمنو!         اولاد کو سب سے زیادہ متاثر کرنے اور نیکی اور تقویٰ پر ان کی تربیت کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ والدین خود ہی اپنے اولاد کےلئے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے او رگناہوں اور برائیوں سے بچنے میں بہترین نمونہ ہوں، کیونکہ اگر اولاد اپنے والدین کو گناہوں اور برائیوں پر جری اور غلطیوں اور ہلاک  کرنے والی چیزوں کے میل میں لتھڑا ہوا  دیکھیں  تو ان کے دلوں میں نیکی کی قدر کمزور پڑجاتی ہے اور یہ انہیں ان گناہوں کی بیماری پر حوصلہ دلاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہنے والی کی یہ بات سچی ثابت ہوتی ہے: ’’باپ نیک نہ ہو تو اس کی اولاد بھی نیکی تک نہیں پہنچتی۔‘‘         لہٰذا  اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سےہر ایک سےاس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ دوسرا خطبہ: أما بعد!           اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سےہر ایک سےاس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اے ایمان والو!         وہ عجیب بات جو عقلوں کے ہوش اڑادیتی ہے،  سمجھ کو ختم کردیتی ہے اور دل کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی  ہے وہ یہ ہےکہ بہت سارے والدین دنیا اور آخرت میں اپنی اولاد کی بدبختی کا سبب ہوتےہیں۔ اس کی وجہ ان کی اپنی اولاد کی تربیت اور ادب سکھانے سے غفلت اور اسے نظر انداز کرنا ہے، بلکہ ان کی اپنی اولاد کی خواہشات پر مدد بھی ہے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ اس خیانت سے بڑھ کر کون سی خیانت ہوسکتی ہے، لہٰذا اے اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سےہر ایک سےاس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ایمان والو!         وہ سب سے بڑی مشکل جس کی وجہ سے بہت سارے معاشرے مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں وہ کاموں کےنگرانوں کی اپنی اولاد کی دیکھ بھال اور ان کی تربیت سے غفلت ہے۔ ہم اپنی اولادوں کے رویہ میں چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں اس بے پرواہی کی بہت ساری علامات دیکھتے ہیں۔ اس بات میں  کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مناظر ہمارے امانت کو ادا نہ کرنے اور اس میں کمی کرنے کا ثمرہ ہیں۔ اللہ کے بندو میں تم سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا وہ باپ جس نے اپنی اولاد کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے، وہ جب چاہتےہیں گھروں سےنکل جاتے ہیں، وہ کس کے ساتھ رہتے ہیں، رات کو جاگتے ہیں اور دن میں سوتے ہیں، گناہوں کاارتکاب کرتے ہیں اور نمازوں کو ضائع کرتے ہیں، کیا ایسے والد نے امانت کو ادا کیا اور اس کی حفاظت کی یا وہ ایسا باپ ہے جو نیک نہیں ہے اور اس کا بیٹا بھی صالح نہیں ہے؟!         اے مؤمنو! میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا وہ باپ جو اپنی اولاد کے لئے یہ پسند کرتا ہو کہ  ان کے صحیح راستہ سے کنارہ کشی کے راستہ ہوں اور وہ اپنے گھر میں ٹیڑھ اور خرابی کے اسباب اور تباہی اور بربادی  کے وسائل داخل کردے۔ کیا اس نے اپنی اولاد اور اپنے گھر والوں کے لئے خیر خواہی کی، یا وہ ایسا باپ ہے جو نیک نہیں ہے اور اس کا بیٹا بھی صالح نہیں ہے؟!          لہٰذا اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور ڈرو اس دن سے جب تم سب اللہ کے پاس لوٹ کر جاؤگے، تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سےہر ایک سےاس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ صحیح مسلمان اور سچا مؤمن اپنی اولاد کی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف راستہ کی فکر کرتا ہے اور اس پر توجہ دیتا ہے، اسی وجہ سے رحمٰن کے بندوں کی دعاؤں میں سے ایک دعا وہ ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ذکر فرمائی ہے: ((ہمارے پروردگا! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنادے۔)) خطبة: وجوب رعاية الأولاد

المشاهدات:1676
- Aa +

خطبۂ اول:

تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔

امابعد!

        سب سے بہترین بات اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین ہدایت رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت ہے۔ اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور اس بات پر اس ذات کا شکر ادا کر وجس کی شان بہت بلند ہے کہ اس نے تم پر اولاد کی نعمت کے ساتھ احسان کیا۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سےاولاد کی نعمت تم پر بہت بڑا فضل اور احسان ہے:   (( وہ جس کو چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے، لڑکے دیتا ہے، (۴۹)یا پھر ان کو ملاجلا کر لڑکے بھی دیتا ہے، اور لڑکیاں بھی، اور جس کو چاہتا ہے، بانجھ بنادیتا ہے۔ یقیناً وہ علم کا مالک ہے، قدرت کا بھی مالک۔(۴۹)))

اے مؤمنو!

        اس نعمت کا بہت بڑا حق اور تاکیدی حکم ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں نعمت کے ذریعہ آزمایا ہے تاکہ وہ یہ جانے کہ تم شکر کرتے ہو یا ناشکری کرتے ہو؟ تمہاری اولاد چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں وہ تمہارے پاس امانت ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں ان کی حفاظت، نگرانی اور انہیں خرابی اور ٹیڑھ پن کے اسباب سے بچانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ سبحانہٗ  جن کا ذکر  بلند ہے وہ  فرماتے ہیں: (( اے ایمان والو!  اپنے  آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔اُس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرّر ہیں جو اللہ کے کسی حکم میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے  ہیں جس کا اُنہیں حکم دیا جاتا ہے۔))

        لہٰذا اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اے مؤمنو!

        شریعت کی نصوص میں غوروفکر کرنے والا یہ جان لیتا ہےکہ اولاد کی درستگی اور ان کا بگاڑ عام طور پر ان کےوالدین کی طرف لوٹتا ہے۔صحیحین کی حدیث حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، یا نصرانی یا مجوسی بناتےہیں۔ ‘‘

        اللہ کے بندے تمہاری اولاد، چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی تمہاری محنت کا نتیجہ اور تمہاری تربیت کا پھل ہے، کیونکہ انہی  اصولوں پر درخت بڑھتے  ہیں۔

اے مؤمنو!

        والدین پر لازم ہے اے مؤمنو۔ کہ وہ اپنی اولاد کو ابتدائی آداب کی چیزیں دیں، تاکہ ان کی اولاد ان سے اپنے بچپن میں ہی مانوس ہوجائے اور وہ بچپن سے ہی ان کے زیرِ تربیت پرورش پائیں،  تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو وہ آداب ان کی طبعیت کا حصّہ بن جائیں، کیونکہ بچے کی  کسی چیز پر تربیت اسے اس کی طبعیت کا حصہ بنادیتی ہے:

        ٹہنیوں کو جب سیدھا کریں تو وہ ٹھیک ہوجاتی ہیں

                اور نرم نہیں ہوتیں جب کہ انہیں لکڑی ٹھیک کرے

        اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور اس سے پہلے اپنی اولاد  کو ادب سکھانے اور ان کی اصلاح میں جلدی کرو جب تمہاری فکریں زیادہ ہوجائیں،  پریشانی آجائے اور حالات کی تبدیلی مشکل ہوجائے۔

        ان کو ادب سکھانے، انہیں اچھے اخلاق اور عادتیں سکھانے اور  برے اخلاق سے محفوظ بنانےکی جلدی کرو، کیونکہ کسی والد نے اپنی اولاد کو اچھی تربیت  سے بڑھ کر کوئی اچھا تحفہ نہیں دیا۔ لہٰذا مہربان والد جو اپنے دل کے ٹکڑے کی اصلاح کا شوق رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ہر بھلائی اور فضیلت کا حکم کرے اور ہر برائی اور بری بات سے روکے۔ انہیں ہر بھلائی کا شوق دلاؤ اور انہیں اس پر ابھارو اور انہیں برائی سے دور رکھو اور اس کی نفرت دلاؤ۔ جب اولاد چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی سمجھ بوجھ کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں نماز کا حکم کرنے، اس کا شوق دلانے اور اس پر ابھارنےمیں جلدی کرو، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ  فرماتےہیں: ’’ اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو اور دس سال کی عمر میں نماز کےلئے انہیں مارو۔‘‘

        ایمان والوجان لو کہ بہت ساری اولاد کا نماز کو ضائع کرنے اور اس کا خیال نہ کرنے کا سبب والدین کا اس نبوی نصیحت پر عمل کرنے میں کمی کرنا ہے، لہٰذا اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اے مؤمنو!

        اولاد کی اصلاح کا سب سے اہم سبب ان کی برے دوستوں اور شریر ساتھیوں سے حفاظت ہے جو اچھائیوں کو ختم کردیتے ہیں اور برائیوں کو پختہ کردیتےہیں، برائیوں کا حکم کرتے ہیں اور نیکیوں سےروکتےہیں، لہٰذا اپنی اولاد کی چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں ان کی اس طرح کے لوگوں کی صحبت سے حفاظت کرو، کیونکہ وہ آنکھ کی گندگی، عمر بھر کی مصیبت اور دنیا اور آخرت کی نحوست ہیں: ((اُس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دُشمن ہوں گے، سوائے متقی لوگوں کے۔))

        لہٰذا  اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سےہر ایک سےاس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اے مؤمنو!

        اولاد کو سب سے زیادہ متاثر کرنے اور نیکی اور تقویٰ پر ان کی تربیت کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ والدین خود ہی اپنے اولاد کےلئے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے او رگناہوں اور برائیوں سے بچنے میں بہترین نمونہ ہوں، کیونکہ اگر اولاد اپنے والدین کو گناہوں اور برائیوں پر جری اور غلطیوں اور ہلاک  کرنے والی چیزوں کے میل میں لتھڑا ہوا  دیکھیں  تو ان کے دلوں میں نیکی کی قدر کمزور پڑجاتی ہے اور یہ انہیں ان گناہوں کی بیماری پر حوصلہ دلاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہنے والی کی یہ بات سچی ثابت ہوتی ہے: ’’باپ نیک نہ ہو تو اس کی اولاد بھی نیکی تک نہیں پہنچتی۔‘‘

        لہٰذا  اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سےہر ایک سےاس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

دوسرا خطبہ:

أما بعد!

          اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سےہر ایک سےاس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اے ایمان والو!

        وہ عجیب بات جو عقلوں کے ہوش اڑادیتی ہے،  سمجھ کو ختم کردیتی ہے اور دل کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی  ہے وہ یہ ہےکہ بہت سارے والدین دنیا اور آخرت میں اپنی اولاد کی بدبختی کا سبب ہوتےہیں۔ اس کی وجہ ان کی اپنی اولاد کی تربیت اور ادب سکھانے سے غفلت اور اسے نظر انداز کرنا ہے، بلکہ ان کی اپنی اولاد کی خواہشات پر مدد بھی ہے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ اس خیانت سے بڑھ کر کون سی خیانت ہوسکتی ہے، لہٰذا اے اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سےہر ایک سےاس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

ایمان والو!

        وہ سب سے بڑی مشکل جس کی وجہ سے بہت سارے معاشرے مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں وہ کاموں کےنگرانوں کی اپنی اولاد کی دیکھ بھال اور ان کی تربیت سے غفلت ہے۔ ہم اپنی اولادوں کے رویہ میں چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں اس بے پرواہی کی بہت ساری علامات دیکھتے ہیں۔ اس بات میں  کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مناظر ہمارے امانت کو ادا نہ کرنے اور اس میں کمی کرنے کا ثمرہ ہیں۔ اللہ کے بندو میں تم سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا وہ باپ جس نے اپنی اولاد کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے، وہ جب چاہتےہیں گھروں سےنکل جاتے ہیں، وہ کس کے ساتھ رہتے ہیں، رات کو جاگتے ہیں اور دن میں سوتے ہیں، گناہوں کاارتکاب کرتے ہیں اور نمازوں کو ضائع کرتے ہیں، کیا ایسے والد نے امانت کو ادا کیا اور اس کی حفاظت کی یا وہ ایسا باپ ہے جو نیک نہیں ہے اور اس کا بیٹا بھی صالح نہیں ہے؟!

        اے مؤمنو! میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا وہ باپ جو اپنی اولاد کے لئے یہ پسند کرتا ہو کہ  ان کے صحیح راستہ سے کنارہ کشی کے راستہ ہوں اور وہ اپنے گھر میں ٹیڑھ اور خرابی کے اسباب اور تباہی اور بربادی  کے وسائل داخل کردے۔ کیا اس نے اپنی اولاد اور اپنے گھر والوں کے لئے خیر خواہی کی، یا وہ ایسا باپ ہے جو نیک نہیں ہے اور اس کا بیٹا بھی صالح نہیں ہے؟!

         لہٰذا اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور ڈرو اس دن سے جب تم سب اللہ کے پاس لوٹ کر جاؤگے، تم میں سےہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سےہر ایک سےاس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ صحیح مسلمان اور سچا مؤمن اپنی اولاد کی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف راستہ کی فکر کرتا ہے اور اس پر توجہ دیتا ہے، اسی وجہ سے رحمٰن کے بندوں کی دعاؤں میں سے ایک دعا وہ ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ذکر فرمائی ہے: ((ہمارے پروردگا! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنادے۔))

خطبة: وجوب رعاية الأولاد

الاكثر مشاهدة

1. خطبة : أهمية الدعاء ( عدد المشاهدات83155 )
3. خطبة: التقوى ( عدد المشاهدات78219 )
4. خطبة: حسن الخلق ( عدد المشاهدات72541 )
6. خطبة: بمناسبة تأخر نزول المطر ( عدد المشاهدات60683 )
7. خطبة: آفات اللسان - الغيبة ( عدد المشاهدات55029 )
9. خطبة: صلاح القلوب ( عدد المشاهدات52239 )
12. خطبة:بر الوالدين ( عدد المشاهدات49433 )
13. فما ظنكم برب العالمين ( عدد المشاهدات47969 )
14. خطبة: حق الجار ( عدد المشاهدات44826 )
15. خطبة : الإسراف والتبذير ( عدد المشاهدات44134 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف