ہم جھنم کی آگ سے کس طرح بچے گے

رابط المقال

-پہلا خطبہ-

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، ہم اسی کی حمد و ثنا ء بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ، اور ہم اللہ پاک سے اپنے نفس کے شرور اور اپنے اعمال کی برائیوں سے پناہ مانگتے ہیں ، جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو گمراہ کردے تو آ پ اس کے لئے کوئی راہ دکھانے والا اور کوئی دوست نہیں پائیں گے، ٍاور میں اس بات ک ی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں ، اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمداللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ آپ پر اور آپ کی اقتدا ء کرنے والوں پر قیامت تک رحم فرمائے. آمین

امابعد۔۔۔

اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو، اللہ کے ساتھ اس طرح تقوی اختیار کرو جس طرح تقوی اختیار کرنے کا حق ہے ، اور ان اوامر پر کمربستہ ہو جاؤ جن میں اللہ کا حق شامل ہے ، جن میں اس کی توحید ، تعظیم ، محبت اور اجلال شامل ہے ۔ اور اللہ رب العزت کی خوشنودی اور رضا کو حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش لگادیں ، کیونکہ انسان جن اعمال میں اپنی جان کھپاتا ہے ان میں سب سے بہتر یہ ہے کہ وہ ان کاموں میں مشغول ہو جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے ۔ یقینا اللہ رب العزت نے تم پر ایسے احکام فرض کئے ہیں جن کے ذریعہ وہ تمہیں تمہاری دنیا میں خوش بختی عطا کرے اور قیامت کی ہولنا کیوں سے تمہیں محفوظ رکھ سکے ۔ پس جس طریقہ پر عمل کرنے سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے تم اس طریقہ پر عمل کرنے کی حرص و لالچ کرو۔ کیونکہ جس طرح معصیت و نافرمانی تمہیں اللہ سے دور کرتی ہے اسی طرح اطاعت اللہ سے قرب بخشتی ہے ۔ ہر قربت و اطاعت خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی ، خواہ وہ اللہ اور تمہارے درمیان ہو یا خواہ وہ تمہارے اور مخلوق کے درمیان ہو ان کے حقوق اور احسان ادا کرنے میں ہوں یہ تمام چیزیں تمہیں تمہارے رب کے قریب کرتی ہیں ۔ اور یہ بات جان لو کہ سب سے بڑی چیز جس سے تم اللہ جلّ جلالہ کا قرب حاصل کرتے ہو ان میں وہ حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کئے ہیں چاہے وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا بندوں سے متعلق ہوں ۔

کیونکہ سب سے زیادہ پسندیدہ چیز جس کے ذریعہ بندہ اللہ جلّ جلالہ سے قرب حاصل کرتا ہے وہ اللہ جلّ جلالہ کے فرائض اور واجبات کو ادا کرنا ہے ۔ صحیح روایات میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی کرتا ہے تو میری طرف سے اسے اعلانِ جنگ ہے ، اور میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال جن کے ذریعہ سے میرا بندہ میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں وہ فرائض کی ادائیگی ہے جو میں نے اس پر فرض کئے ہیں ، اور میرا بندہ نوافل کی ادائیگی سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ، اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں ، اور اگر وہ کسی چیز سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں ، اور میں اپنے کسی کام میں توقف نہیں کرتا جس کے کرنے کا میں ارادہ کرتا ہوں ، سوائے مؤمن کی جان کو قبض کرنے کے ، اس لئے کہ وہ موت سے کراہت کرتا ہے اورمیں ا س کے گناہوں سے کراہت کرتا ہوں‘‘۔

پس پہلا مرتبہ یہ ہے کہ تم اللہ کے فرض کردہ فرائض واحکام کو بجالاؤ۔ اور دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ تم اچھائیوں ، نوافل اور مستحبات کی کثرت کرو، کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعہ انسان دنیا کی نجات ، آخرت کی کامیابی اور اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل کرتا ہے ۔

اے ایمان والے اللہ کے بندو!  یقینا وہ اعمال جن سے بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرتا ہے ان میں سے ایک یہ بھی اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کو ان تمام اعمال میں مشغول ہونے سے بچائے جو آگ سے قریب اور ہدایت سے دور کریں۔ اور یہی وہ ذمہ دار ی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہے پس ہم میں سے ہر شخص اس بات کا مکلف ہے کہ وہ خود کوجہنم کی آگ سے بچائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے :  (ترجمہ)  ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘۔  اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان اعمال میں مشغو ل ہوں جن کے ذریعے ہم خود کو اللہ کے عذاب، نافرمانی اور اس سب سے جو اس نے گناہگاروں کے لئے جہنم میں تیار کر رکھا ہے بچا سکیں ۔ اور یہ سب اللہ کی طرف رجوع اور اس کی اطاعت سے حاصل ہوگا ۔ یقینا تم سے تمہارے اپنے بارے میں پوچھا جائے گااورتم سے چھوٹے اور بڑے اورچپکے کئے ہوئے اور سرِعام کئے ہوئے اعمال کے بارے میں حساب ہوگا، پس خبردار ہوان اعمال کے ارتکاب سے جن کو کرتے ہوئے دیکھ کر اللہ تم سے راضی نہ ہوکیونکہ اللہ رب العزت نے حضرت آدم ؑ کو معصیت کی بنا ء پر جنت سے نکالا ، لہٰذا تم باغی مت بنو اور کسی بھی گناہگار کو ہلکا مت جانو چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہوکیونکہ جب گناہ کسی بندے پر جمع ہوجاتے ہیں تو اسے ہلاک کر دیتے ہیں ۔ صحیح روایات میں حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:’’ معمولی سے معمولی گناہ سے بھی پرہیز کروکیونکہ وہ بندے پر جمع ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ (آخرکار) اسے ہلاک کر دیتے ہیں ‘‘۔ ’’اور اللہ کے رسولنے گناہوں کی مثال اس طرح دی جس طرح کچھ لوگ ایک بیابان جگہ پر آئے اور پھر خدمت کا وقت آگیا پھر ان میں سے کوئی آدمی جاتا ہے اور لکڑی لے آتا ہے اوردوسرا اور لکڑی لاتا ہے یہاں تک کہ انہوں نے بہت ساری لکڑیاں جمع کرلیں پھر ان پر آگ کو بھڑکایا اور جو کچھ اس میں ڈالا تھا اسے آگ پر پکایا‘‘ ۔یعنی وہ معمولی گناہ جن کو کوئی اہمیت نہیں دیتا کہتا ہے کہ یہ تو مجھے نقصان نہیں پہنچائیں گے یہ تو مجھ پر کوئی اثر نہیں کرسکتے اور یہ ہرگز مجھے سیدھے راستے سے دور نہیں کریں گے اور ان گناہوں کے ذریعہ سے اللہ ہر گزناراض نہیں ہوگا ، پس اللہ کے رسول نے معمولی سے معمولی گناہ کے ارتکاب سے بھی اجتناب کاحکم دیا ہے کہ تم معمولی گناہوں کے ارتکاب سے بھی بچوکیونکہ یہ جب کسی بندے پر جمع ہوجاتے ہیں تو اسے ہلاک کر دیتے ہیں ۔پھر اللہ کے رسول نے اس بات کی وضاحت بھی فرمادی کہ کس طرح معمولی غلطیوں اور معمولی گناہوں کی بدولت انسان ہلاکت میں پڑ جاتا ہے ، اور پھر اللہ کے رسول نے اس کی مثال اس قوم سے دی جو کسی ویران جگہ پر آئے اور پھر خدمت کا وقت آیا اور پھر ایک شخص جاتا اور لکڑیاں جمع کرکے لے آتا ہے اور دوسرا شخص بھی لکڑیاں جمع کرکے لے آتا ہے یہاں تک کہ انہوں نے کافی مقدار میں لکڑیاں جمع کرلیں پھر ان میں آگ بھڑکائی اور جو کچھ اس پر ڈالا تھا اسے پکایا۔

اس طرح پے درپے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی بدولت بھی انسان ہلاکت میں گر جاتاہے ، اور یقینا مومن سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے آ پ کو چھوٹے اور بڑے گناہوں سے بچائے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :  (ترجمہ)  ’’ گناہ کے ظاہر اور باطن کو چھوڑدو‘‘، پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں ظاہری اور باطنی دونوں گناہوں سے بچنے کا حکم دیا ہے ، ظاہر ی گناہوں میں وہ گناہ جن پر لوگوں کی نظریں ، ان کے کان اور ان کے علم میں آتے ہیں اور باطن سے مر اد وہ گناہ جو تمہارے اور اللہ پاک کے درمیان ہیں ۔

پس تم خبردار رہو اور ان سے اجتناب کی کوشش کروکیونکہ ’’ہر بنی آدم خطا کار ہے‘‘ مگر غلطیاں کرنے والوں کی غلطیوں کے ٹھیک ہونے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں ، اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا:  ’’ سب سے بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں ‘‘ یقینا  آپنے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ سب سے غلطیاں ہوتی ہیں مگر تم آپ کے محض اس قول تک مت رہو کیونکہ ہر شخص غلطی کرنے کو اپنے لئے اچھا سمجھتا ہے کہ ہر بنی آدم خطا کا ر ہے مگر وہ آپ کی اس مبہم بات کو چھوڑ دیتا ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ فرمایاکہ بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں ۔

پس تم بھی( توّاب) بنوکیونکہ آپ نے (تائب ) نہیں فرمایاکہ توبہ کرنے والا بلکہ آپ نے (توّاب) یعنی باربار توبہ کرنے والا فرمایا، اس لئے توبہ کا بار بار کرنا اس میں تکرار پایا جائے گا اور وہ لوگ توبہ سے استغناء بھی نہیں برتتے ، یہ وہ عبادت ہے جو انسان سے کسی بھی حال میں اور کسی بھی لمحہ جدا نہیں ہوتی یہ پوری عمر کی عبادت ہے، اس لئے ہمیں توبہ و استغفار کی بہت زیادہ ضرورے ہے ۔

یہ مت کہو کہ فلاں گناہ نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا میں نے گناہ کیا مگر میں اس کا کوئی اثر نہیں پاتا ، کوئی ہر گناہ لازماََ کوئی نہ کوئی اثر ضرور چھوڑتا ہے مگر جب بصیرت کی شمع بجھ جاتی ہے اور دل اندھے ہوجاتے ہیں تو اس وقت کوئی چیز اثر نہیں کرتی جس طرح مردہ کو زخم دینا تکلیف کا باعث نہیں بنتا ، جب انسان مسلسل گناہ اور غلطیاں کرتا رہتا ہے تو اس کا دل سخت ہو جاتا ہے اور پھر وہ غفلت میں پڑا رہتا ہے اور اس وقت اس کے لئے جاگنا ممکن نہیں ہوتا ، پھر وہاں کچھ رکاوٹیں آجاتی ہیں جو اسے اللہ کی طرف رجوع کرنے سے مانع بن جاتی ہیں اور راستہ کی اصلاح اور درستگی صرف اللہ ہی کی طرف لوٹنے میں ہے ، پس تم توبہ اور استغفار کی کثرت کرو، محمد بن عبداللہ لوگوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے اور لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے قرب و اطاعت والے ، سب سے زیادہ رتقوی والے اور اللہ کے اوامر پر سب سے زیادہ کھڑے ہونے والے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ اپنے رب سے کتنی مرتبہ استغفار کرتے تھے؟ جس طرح ہماری یہ مجلس ہے اس طرح آپ ایک ہی مجلس میں ستر(۷۰) سے زائد مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔

آپفرماتے:’’ اے میرے پروردگار مجھے معاف فرما، اور میرے اوپر توبہ کے دروازے کھول دے ، یقینا تو ہی توبہ کے دروازے کھولنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے‘‘ ، یہ تو اس بندے کا حال ہے جس کی غلطیوں کو اللہ جلّ جلالہ نے مٹادیا ہے اور اس کے گناہوں کی تخفیف کردی ہے اور اس کے درجے کو بلند کردیا ہے ، اور ہر اذیت کو ان سے دور کردیا ہے اور آپ ان سب کے باوجود ایک مجلس میں ۷۰ مرتبہ سے زائد استغفار کرتے تھے ۔ اور صحیح روایت سے ثابت ہے کہ نبی کریم اپنے آخری وقت میں نماز کے دوران تشہد اور سلام کے درمیان یہ دعا مانگتے جو حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول نے اپنے سجدوں میں یہ فرماتے :’’اے اللہ میرے چھوٹے اور بڑے ، پہلے اور بعد والے ، چپکے کئے ہوئے اور برسرِ عام کئے گئے تمام گناہ معاف فرما‘‘ ۔

آپگناہوں اورخطاؤں سے مغفرت طلب کرتے ہوئے وسعت اختیا ر کرتے تھے تاکہ اس میں تمام چھوٹے اور بڑے گناہ آجائیں ، لہٰذا تم سوچو کہ صبح سے اب تک تمہاری کتنی غلطیاں ہیں ؟اور اپنی غلطیوں کے معاملے میں غافل مت بنو کیونکہ لوگ تو نہیں دیکھتے مگر اللہ کے علم میں تو سب کچھ ہے ، اسی طرح یہ سوچو کہ تمہارے دل میں کس قدر تکبر ہے ؟ کس قدر تمہارے دل میں بغض ہے ؟ کس قدر تمہارے دل میں حسد ہے ؟ کس قدر تمہارے دل میں عجب اور لوگوں کے لئے دکھلاوہ ہے ؟ کس قدر تمہارے دل میں ۔۔۔۔؟؟؟  بعض لوگناہوں کو بس چند صورتوں میں سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں تو زنا نہیں کرتا ، میں تو چوری نہیں کرتا ، میں تواپنے والدین کی نافرمانی نہیں کرتا ، اور وہ ان گناہوں کو نہ کرنے کے سبب دوسرے گناہوں سے غافل ہوجاتا ہے ، کیونکہ گناہ صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی ہیں جو تمہیں ہلاکت میں ڈال سکتے ہیں ، اور تمہیں برے نتیجے اور برے حال میں پھنسا سکتے ہیں ۔ پس تم سرّاََ اور علانیۃََ اللہ سے ڈرو ، اور ظاہری اور باطنی گناہوں کو چھوڑ دو، اور گناہوں اور برائیوں میں جس قدر ممکن ہوتخفیف کرنے کی کوشش کرو، اور توبہ اور استغفار کی کثرت کرو، اور گناہ کے بعد نیکی کرووہ اس کو مٹادے گی ، یقینا اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے ، میں اتنی بات کی عرض کرتا ہوں اور اللہ پاک سے اپنے لئے اور آپ سب سے کے لئے استغفار کرتا ہوں پس تم بھی اس سے استغفار کرو یقیناوہ مغفرت کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے ۔

 

-دوسراخطبہ -

 

تمام ایسی تعریفیں جو شکر کرنے والے کرتے ہیں وہ اللہ ہی کے لئے ہیں، میں اللہ جلّ جلالہ کی تعریف کے حق کے مطابق اس کی تعریف بیان کرتا ہوں میں اس کی تعریفوں کو شمار کرنے سے قاصر ہوں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اولین و آخرین کا معبود ہے وہ نہایت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ اے اللہ محمد اور ان کی آل پر اپنی رحمتیں نازل فرما جس طرح تونے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر رحمتیں نازل فرمائیں ، یقینا تو بہت زیادہ تعریفوں والا اور بزرگی والا ہے ۔

امابعد۔۔۔

اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو، اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اپنے درمیان اس کی اطاعت کے ساتھ ڈھال بناؤ، اللہ تعالیٰ اور اس کے عذاب کے درمیان اس کے اوامر پر عمل پیرا ہوکر ڈھال بناؤ۔

اپنے اور اللہ رب العزت کے عذاب کے درمیان ان اوامر کو چھوڑ کر ڈھال بناؤ جن کے چھوڑنے کا اس نے حکم دیا ہے ، کیونکہ یہ امور تمہیں بہت جلدخوش بختی اورآخرت کا کامیابی کو ثابت کریں گے ۔

’’اور جس کو آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تحقیق کے وہ کامیاب ہوگیا‘‘  ’’یقینا پرہیزگاروں کے لئے کامیابیاں ہیں ‘‘ اے اللہ ہمیں اپنے متقی بندوں میں سے بنا اور ہمیں کامیاب ہونے والی جماعت میں سے اور اپنے نیک دوستوں میں سے بنا (آمین)

اے ایمان والو!  ہم سب اس بات کے محتاج ہیں کہ کوئی ہمیں یاد دہانی کرائے ، کوئی ہمیں نصیحت کرے ، کوئی ہمیں ہماری غفلت سے بیدار کرے کیونکہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن پر غفلت نے ڈالے ہوئے ہیں ، اور یہ سب ان کے آخرت سے پھرنے اور دنیا کی طرف میلان کی وجہ سے ہے اس لئے مومن کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنے نفس کا علاج کرے اور کوئی اچھا اور بہتر راستہ دیکھے جو اس کے رب کی طرف لے جائے، ’’ہر نفس اپنے اعمال میں جکڑا ہوا ہے ‘‘ لہٰذا خطاکاروں بکثرت ہونے ، غافلین کے بکثرت ہونے اور اعراض کرنے والوں کے بکثرت ہونے سے دھوکہ میں مت پڑو، کیونکہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے ساتھ تمہارا حساب نہیں فرمائے گا ، بلکہ صرف تمہارے اکیلے کا حساب ہوگا ، اوراللہ تم سے اپنے اوامر ونواہی کے بارے میں پوچھے گا کہ تم نے عمل میں کیا کیا؟ اور اس امر میں نافرمانی کیوں کی؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب میں یہ خبردی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص اپنے عمل میں مقےّد ہے ’’ہر نفس اپنے عمل میں جکڑا ہوا یعنی قید ہے‘‘ ، ہر نفس اپنی کمائی اور اپنے عمل میں قید ہے تمہارا عمل یا تو تمہیں چھڑائے گا یا پھر قید کروائے گا ، اگر تمہار اعمل صالح ہوا تو تمہیں اللہ کے عذاب سے چھڑائے گا اور اس کے عقاب سے آزاد کروائے گا اور اگر عمل صالح اور اچھا نہ ہوا تو اس صورت میں تم خود کو ہی ملامت کرنا۔

(اے اللہ ہمیں سیدھی راہ بتااورہمیں ہمارے نفس کے شر سے بچا )

جن اوامر کا اللہ نے حکم دیا ہے تمہارے نفس کی اصلاح کے لئے پس ان اوامر پر کمربستہ ہوجاؤ ، اور اپنے اہل کو ہر اچھائی اور ہر خیر کی نصیحت کرو۔ حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہماروایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’ خبردار تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے ، اور تم میں سے ہر کسی سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ، پس جو لوگوں پر امیر ہے وہ نگہبان ہے اس سے اس کی رعایہ کے بارے میں پوچھا جائے گا ، اور مرد اپنے گھر والوں کے بارے میں نگہبا ن ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ، اور اپنے شوہر کے گھر اوراس کے بچوں پر نگہبان ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ، اور غلام اپنے سردار کے مال پر نگہبان ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ، خبردار تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔

اگر تم نے اپنے اہل وعیال اور ان لوگوں کے حق میں جن پر اللہ تعالیٰ نے تمہیں نگہبان بنایا ہے کوئی تقصیر یا کمی کی تو تم کسی صورت میں بچ نہیں سکتے ، اور یہ لازم نہیں کہ اس سے مراد باپ ہی ہے اور جو باپ نہیں ہے وہ کہے کہ یہ خطاب ہمیں نہیں ہے بلکہ یہ خطاب ہر مومن کے لئے ہے ، اللہ کے رسولکا ارشاد ہے :’’ جو تم میں سے نافرمانی کو ہوتے ہوئے دیکھے توپہلے تو اسے ہاتھ سے روکے اور اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنے دل میں اسے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ کا ارشا دہے :  (ترجمہ)  ’’ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘ یہاں اہل سے مرادیہ ہے کہ اپنے ماں ، باپ ، بہن ، بھائی ، چھوٹے اور بڑے کو وعظ ونصیحت سے سمجھائے ، ہم سے ہر شخص جس قدر اسے قدرت ہو گناہوں سے بچنے اور نیکی کے کرنے کی وہ اس میں مأمور ہے۔ یقینا گناہ لوگوں سے اچھائیوں کو چھپادیتے ہیں ، تمہاری اچھائیوں کو چھپا دیں گے ۔ پہلی چیز جو تمہارے گناہ تم سے چھپا ئیں گے وہ تمہارا شرح ِ صدر اور دل کا اطمینان ہے، پس تم استغفار کی کثرت کرو تاکہ یہ چیز تم سے زائل ہوسکے ،پھر انہیں گناہوں کی بدولت زمین و آسمان میں مصیبتیں اور برائیاں مترتب ہوتی ہیں جس کا اللہ پاک یوں ذکر فرماتے ہیں:  (ترجمہ)  ’’خشکی اور سمندر میں جو بھی فساد واقع ہوتا ہے وہ سب لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے تاکہ اللہ انہیں چکھائے اس کا بعض جو عمل وہ کرتے ہیں ‘‘۔ یعنی کہ وہ لوگوں کو ان کی کوتاہیوں اور اعمال کے ثمرات دکھائے کس وجہ سے ؟ ’’تاکہ وہ لوٹ آئیں‘‘ یعنی وہ درستگی اختیار کرلیں ۔

جب مختلف تنبیہات پے درپے ہمارے اوپر آتی ہیں اور پھر بھی ہمارے دلوں میں کوئی لوٹنے کی شکل پیدا نہیں ہوتی تو اس وقت لوگوں کے دلوں پر غفلت ڈیرے ڈال لیتی ہے اور پھر ان پر کوئی وعظ و نصیحت اثر نہیں کرتی، اور پھر ان پر مختلف قسم کی عقوبات اور پریشانیاں پنجے گاڑلیتی ہیں ، اور جب یہ سب کچھ ہوجائے تو اس وقت انسان کو صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خاص و عام احکام کے جاری کرنے کے ذریعہ تأدیب کرتاہے ، پھر اللہ پاک وہ چیزیں روک دیتاہے جن سے وہ محبت کرتے ہیں اور ان پر وہ حالات واقع کردیتا ہے جو انہیں مکروہ و ناپسند ہوتے ہیں ، تاکہ وہ ٹھیک ہوجائیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں ، تو تمام مصیبتیں ، نعمتوں سے محرومی سب کچھ ان کے ٹھیک ہونے کے لئے سبب بن جاتاہے ۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے :  (ترجمہ)  ’’ اس ظلم کی وجہ سے جو یہود نے کیاہم نے ان کی پاکیزہ چیزیں جو ان پرحلال تھیں حرام کردیں‘‘۔ اوریہ تحریم ’’تحریمِ قدری ‘‘ کہلاتی ہے یعنی اللہ لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ان کی محبوب چیزیں روک دے جس طرح بنی اسرئیل کے ساتھ کیا تو یہ تحریم ’’تحریم شرعی‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔اور اس کو تحریمِ قدری پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کے پاداش میں اپنے انعامات اور طیبات میں سے بعض چیزیں روک دے ، اور سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ سے خاص و عام پریشانیاں ، مصیبتیں اور آزمائشیں زائل ہوتی ہیں وہ زمین و آسمان کے رب کی طرف عود کرنا ہے استغفار وتوبہ کے ذریعہ ، پس سب اللہ سے توبہ کرو اور بہترین زاد کی اس سے امید رکھو۔

توبہ سے کیا مراد ہے ؟ مختصر یہ کہ ماضی کے گناہوں پر ندامت ہو اور موجودہ غلطیوں کو جڑ سے اکھیڑ دے اور مستقبل میں سیدھے راستے اور اصلاح کاپکا ارادہ اور عزم کرلے۔ ’’اے ایمان والو ! اللہ سے خالص و سچی توبہ کرو‘‘ (الآیۃ)

اے اللہ !  ہمیں ہماری سیدھی راہ بتلا، اور ہمیں ہماری جانوں کے شر سے بچا، ہمیں سیدھی راہ پر لے چل ۔

اے تمام جہانوں کے پالنہار !  ہمیں اپنے بندوں ، دوستوں اور جماعت میں سے بنا۔

 اے اللہ !   ہم سے برائی اور فحاشی کو پھیر دے ۔

اے اللہ !   ہم تجھ سے ہدایت ، تقوی، عفت ، غنا ء اور سیدھی راہ کے طلبگار ہیں ۔

اے اللہ !  تمام امور میں ہمارے انجام کار کو اچھا فرما۔

اے تمام جہانوں کے پروردگار!  ہم تجھ سے تیرے فضل کے طفیل سچا ایمان ، عملِ صالح اور ظاہر و باطن میں درستگی کا سوال کرتے ہیں ۔

اے اللہ !  ہمیں ہمارے ممالک میں امن عطا فرما اور ہمارے امام اور سربراہان کی درستگی فرما۔

اے زندہ رہنے والے اور ہمیشہ قائم ودائم رب ہم پر اس کو سربراہی عطا فرماجو تجھ سے خوف کھائے اور تقوی اختیار کرے اور تیری رضا کی پیروی کرے ۔

اے اللہ !  محمدپر اور ان کی آل اولاد پر اپنی رحمتیں نازل فرما جس طرح تونے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آ ل اولاد پر رحمتیں نازل فرمائیں ، یقینا تو تما م تعریفوں کے لائق اور بزرگی والا ہے. آمین ثم آمین.

خطبة : بماذا تتقي النار.