سورۂ فاتحہ کی قرأت کے متعلق ابن نصراللہ کا بہوتی کے ساتھ اختلاف

رابط المقال

ابن نصراللہ کا بہوتی کے ساتھ اختلاف کشاف القناع (۲۰۶/۲) میں آیا ہے :(اگر کسی نے سورۂ فاتحہ میں سے ایک حرف بھی چھوڑدیا تو اس کو شمار نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ اس نے اس کو پڑھا ہی نہیں بلکہ اس نے اس کا بعض حصہ پڑھا ہے یا اس میں سے مشدد کرکے ترک کردیاتو پھر بھی اسے شمار نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ تشدید حرف کے بمنزلہ ہے اور حرفِ مشدد دو حروف کے قائم مقام ہے ، جب اس نے تشدید میں خلل ڈال دیا تو اس طرح اس نے حرف میں بھی خلل ڈال دیا ۔ ابن نصراللہ نے (شرح الفروع ) میں کہا ہے : یہ تب ہے جب اس کا محل فوت ہوجائے اور اس سے بعید ہوجائے ، اس لئے کہ اس طرح موالاۃ (پے درپے پڑھنے ) میں خلل واقع ہوتاہے ، اور اگر وہ اس کے قریب ہو اور کلمہ کا اعادہ کرلے تو پھر وہ اس کے لئے کافی ہوجائے گا ، اس لئے کہ یہ ایسا ہوجائے گا جیسا کہ اس نے اس کو بطورِ غلطی کے کہا اور پھر وہ اس کو صحیح کرکے لائے ۔ فرماتے ہیں: یہ سب اس کے نماز کے عدمِ بطلان کا تقاضہ کرتا ہے ، اور اس کا مقتضاء یہ ہے کہ:وہ تشدید بطورِ سہو اور غلطی کے ہو ، اور اگر اس نے اس کو قصد و ارادہ سے چھوڑدیا ہو تو پھر مذہب کا قاعدہ یہ ہے کہ اس کی نماز باطل ہوگئی ۔ اگر وہ اس کے محل سے منتقل کرلے ۔ جیسے اس کے علاوہ اور ارکان کی طرح ، اور اگر وہ جب تک اس کے محل میں رہے اور وہی اس کا حرف ہے تو پھر اس کی نماز باطل نہیں ہوئی ۔ ابن نصراللہ نے بہوتی کے کلام پر تعلیقاََ کہا : یہ بات قابلِ غور ہے کہ فاتحہ ایک رکن ہے جس کا محل قیام ہے، نہ کہ ہر حرف اس کا رکن ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ابن نصراللہ اور بہوتی کے درمیان اختلاف کی حقیقت کیا ہے اور صحیح بات کیا ہے اور یہ کہ کیا سورۂ فاتحہ ایک مستقل رکن ہے یا پھر ہر حرف ایک الگ رکن ہے حنابلہ کے مذہب کے مطابق؟

خلاف ابن نصر الله مع البهوتي حول قراءة الفاتحة