صحابہؓ نے تصاویر کو لٹکے برقرار کیوں رکھا؟

رابط المقال

مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ صحابہؓ مختلف جگہوں اور ملکوں میں گئے جہاں تماثیل یعنی تصویریں تھیں مگر انہوں نے ان کو نہیں ہٹایا تو اس کا کیا جواب ہے، یہ طبری نے اپنی تأریخ کی کتاب میں ذکر کیا ہے(۴۶۴/۲)،(۴۷۸/۴) کسری کے دربار کی دیواروں پر رنگین تصاویر تھیں جو کی طبیعی حجم میں بڑی ہی دقت اور سلیقے سے بنائی گئی تھیں، اور یہ تصاویر آج بھی موجود ہیں۔ اب ظاہری بات ہے کہ یہ تصویریں زمین تلے دبی تو نہیں تھیں، بلکہ محل میں واضح نظر آتی تھیں اور اسی محل میں صحابہؓ کا ایک بڑا عدد آکر اقامت پذیر بھی ہوا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہ تصاویر نہ دیکھی ہوں؟ جہاں تک یہ بات ہے کہ توڑنا ممکن نہ ہو گا تو اس کی بجائے ظاہری شکل تو بگاڑ ہی سکتے تھے، اور یہ کام کرنے کیلئے کسی بڑی رقم بھی درکار نہ ہوگی اور نہ ہی لوگوں کا ایک بڑا عدد چاہیئے ہوگا جو یہ کام سر انجام دے، بڑا ہی آسان سا طریقہ ہے کہ حاکم دیواروں کو دوبارہ سے رنگ کرنے کا حکم دے دے۔ یہ سب جانچنے کے بعد صرف یہی توجیہ رہ جاتی ہے کہ وہ تصاویر کو منہدم کرنے والی احادیث سے یہی سمجھے ہونگے کہ وہ ان تماثیل و تصاویر کے ساتھ خاص ہیں جو مقدس سمجھی جائیں یا یہ کہ ایسی تصاویر ہوں جن کی عبادت کی جائے۔ یہ تصاویر برقرار رہیں جن کو دیکھا جاتا رہے اور ادباء اور مؤرخین نے ذکر کیا جیسا کہ یاقوت الحموی نے معجم البلدان (۲۹۵/۱) میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح بحتری نے بھی ان کی اپنے ایک قصیدے میں تصویر کشی کی ہے کہ یہ اتنی دقت و نفاست سے بنائی گئیں ہیں کہ دیکھنے والا انہیں حقیقی سمجھنے لگے اور ان کو چھو کر دیکھے کہ یہ واقعی تصاویر ہیں، تو صحابہؓ نے اس کو کیوں برقرار رکھا؟

لماذا ترك الصحابة هذه الصور معلقة؟