اللہ تعالی کو مدنظر رکھنے کا وجوب

رابط المقال

خطبہ اول:

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں ،ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ،جس کو اللہ تعالی ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ،اور جس کو اللہ تعالی گمراہ کردے ا س کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کاکوئی شریک نہیں ،اور محمد ﷺ ا س کے بندے اور رسول ہیں۔

اما بعد ۔۔۔

اے ایمان والو!

خلوت ،جلوت ،غیب اور حاضر میں اللہ تعالی سے ڈرو،بیشک تمہارا رب بہت جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے ،جس سے آسمانوں اور زمین میں کوئی چھوٹی اور بڑی چیز پوشیدہ نہیں ہے ،اللہ تعالی کھجور کی گھٹلی میں شگاف اور اس کے اوپر جھلی اور ہر چھوٹی اور بڑی چیز میں تمہار ا حساب کرے گا،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ((جو شخص ذرہ برابر نیک کام کرے گا وہ اس کو دیکھے گا اور جو ذرہ برابر برا کام کرے گا وہ اس کودیکھے گا))دوسر ی جگہ پر اللہ تعالی کاارشا ہے : ((ہم نے  ہر چیز کو واضح کتاب میں شمار کیا ہے ))۔

اے اللہ کے بندوں !

اللہ تعالی نے آپ کو خبر دی ہے کہ وہ تمہارا اعمال کا نگہبان ہے ،تمہارے سینوں کے رازوں کو جاننے والا ہے ،اس پر تمہاری کوئی پوشید ہ چیز مخفی نہیں ہے ،راز اس کے ہاں ظاہر ہے ،اس نے تمہیں اس بات کی خبر دی ہے تاکہ تم اس سے ڈرو اور اس کا مراقبہ کرو،اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ((تم جان لوکہ اللہ تعالی تمہارے سینوں کی باتوں کو جانتا ہے بس اسی سے ڈرو))ایک اور جگہ پر ارشاد ہے: ((بیشک اللہ تعالی تم پر نگہبان ہے ))۔

وہ تو سوچ اور خیالات پر بھی نگہبان ہے تو اعمال اور ارکان پر کیسے نہیں ہوگا۔

اے اللہ کے بندوں !جو شخص اپنے نفس کی خیرخواہی اور اس کی نجات چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ اس بات کا استحضار اور یقین کرلے کہ اللہ تعالی کو اس کی ہر ظاہر اور باطنی حالت کی خبر ہے ،جو شخص اس طرح کا عقیدہ رکھے گا تو اس میں کوئی شک نہیں وہ بہت ساری خیر حاصل کرے گا اور بڑے شر سے اپنے آپ کو محفوظ کرلے گا،اللہ تعالی ہر چیز پر گواہ ہے ،اس وجہ سے آپ  ﷺ نے اللہ تعالی کے مراقبہ اور اس بات کو کہ اللہ تعالی کو ہر حالت کاعلم ہے دین کے بلند مقام میں شمار کیا ہے ،جب آپ ﷺ سے احسان کے بارے میں پوچھا گیا کہ تو آپ نے فرمایا:”کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو،اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو وہ تم کودیکھ رہا ہے “،جو شخص اس نیت سے عبادت کرے کہ اللہ تعالی اس کے سامنے ہے اورحاضر ہے اور وہ اس کو دیکھ رہاہے ،تو یہ بات اللہ تعالی کے خوف،خشیت اور تعظیم میں اور اضافہ کرتی ہے ،جیسا کہ اس بات کا عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی کواس کی  ہر حالت کی اطلاع ہے اس کی عبادت کے احسان اور اس کو مکمل اور تام کرنے میں اضافہ کرتا ہے ،اسی وجہ سے آپ ﷺ نے نمازمیں خشوع کے بارے میں تاکید فرمائی ہے ،آپ ﷺ کا ارشاد ہے :”یقینا جب تم میں سے کوئی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سر گوشی کرتاہے ،یا اس کے اور اللہ کے درمیان صرف قبلہ ہوتا ہے “۔

اے ایمان والو !

اللہ کے بندے اس بات کا یقین کرنا کہ اللہ تعالی کو اس کی ہر چھپی ہوئی اور ظاہری با ت کاعلم ہے ،اور اللہ تعالی سے اس کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ،یہ عقیدہ ہرطر ح ظاہر ی اور باطنی گناہ  چھوڑنے کا سب سے بڑا سبب ہے ،انسا ن اس و قت اپنی جان پرظلم اورگناہ کرتا ہے جب وہ اس بات سے غافل ہوجاتا ہے ،اسی وجہ سے اللہ تعالی نے گناہ اورنافرمامیوں کی وجہ سے جہنمیوں کی پریشانی کو بیان کرتے ہوئے فرمایاہے: ((اور تم (گناہ کرتے وقت)اس بات سے تو چھپ ہی نہیں سکتے تھے کہ تمہارے کان،تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں تمہارے خلاف گواہی دیں،لیکن تمہارا گمان یہ تھا کہ اللہ کو تمہارے بہت سے اعمال کا علم نہیں ہے ،اپنے پروردگار کےبارے میں تمہارا  یہی خیال تھا جس نے تمہیں برباد کیا ،اور اسی کے نتیجے میں تم ان لوگوں میں شامل ہوگئے جوسراسر خسارے میں ہیں ))۔جس شخص کے دل میں یہ ہو کہ اللہ تعالی پر اس کی کوئی چیز مخفی نہیں ،تو وہ اپنےرب کامراقبہ کرے گا،اپنے نفس کا حساب کرےگا،اور آخر ت کےلیے توشہ تیار کرے گا،اور اس کے ہاں تنہائی اور ظاہر ی حالت برابر ہوگی،اسی وجہ سے آپ ﷺ نے یہ وصیت فرمائی ہے: ”تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے  ڈرو“یعنی تنہائی اور جلوت میں ،جہاں آپ کو لوگ دیکھیں یا نہ دیکھیں ،اللہ تعالی کاخوف  ہر حالت میں کرنا انسان کو دنیا اور آخرت میں نجات دیتا تھا،اسی وجہ آپ  ﷺ یہ دعا مانگتے تھے ”اے اللہ !میں آپ سے غیب اور حاظر میں آپ کے خوف کا سوال کرتاہوں“امام احمد بن حنبل اکثر یہ اشعار پڑھتے تھے :

اگر تو ایک زمانہ بھی تنہائی میں رہے تو یہ مت کہنا کہ میں تنہائی میں رہا ،بلکہ کہنا کہ مجھ پر نگہبان ہے ،

اللہ کے بارے میں یہ گمان مت کرنا کہ وہ کسی بھی گھڑی غافل ہوسکتا ہے ،

اورنہ ہی اس کوئی غیب کی چیز پوشید ہے ۔

اے اللہ کے بندوں!اللہ سے ہرحال میں ڈرو،اور تنہائی میں اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے بچو،بیشک جب انسان  تنہائی میں کوئی گناہ کرتا ہے تواس پر بعد میں اس کااثر رہتا ہے ،اس کےبارے میں ایک عجیب قصہ نقل گیا ہے کہ:ایک شخص تنہائی میں سود کھاتا تھا جس کا علم کسی کو بھی نہیں تھا ،ایک دن وہ بچوں کےپاس گذر رہا تھا ،تو بچے ایک دوسرےسے کہنے لگے کہ:سودخور آگیا:تو اس نے سر جھکا کر اپنے دل میں کہا کہ اے رب!آپ نے بچوں پر میرا راز فاش کردیا،اس نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ،اور اپنا مال جمع کردیا،اور کہا کہ اے رب!میں قیدی ہوں ،اور میں نے اس مال کے بدلے اپنا نفس آپ سے خرید لیا لہذا مجھے آزاد کریں ،اس کے بعد اپنا سارا مال صدقہ کردیا  تو اس کی خلوت اور جلوت درست ہوگئیں،پھر ایک دن ان بچوں کےپاس گذرا ،جب انہوں نے اس کو دیکھ لیا تو کہنے لگے تو خاموش ہوجاؤ،وہ عبادت گذار بندہ آرہاہے ،تو وہ شخص رونے لگا،پا ک ہے اس کی ذات جس کے فضل کی پھونک کےساتھ دل ایمان کےلیے وسیع ہوجاتے ہیں اور کھل جاتے ہیں،اور جس کی بہترین ہدایت کے ذریعہ اور توفیق کی وجہ سے دلوں سے جہالت کے پردے ہٹ جاتے ہیں،ہم اسی ذات کی پناہ میں آتے ہیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے ۔

خطبہ ثانی:

امابعد۔۔۔

اے اللہ کے بندوں ! اللہ سے ڈرو،غیب اور حاضر میں اسی کا خوف کرو،جو شخص اللہ کامرقبہ کرتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے اس کےلیے اللہ تعالی نے بڑا اجر تیا رکیا ہے ،اللہ تعالی کاارشاد ہے: ((ان کابدلہ ان کے رب کے ہاں یہ ہے کہ:ان کےلیے ہمیشگی کے باغات ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے رہیں گے ،اللہ  ان سے راضی ہوگیا وہ اللہ سے راضی ہوگئے ،یہ بدلہ اس کےلیے ہے جو اللہ سے ڈرے ))جو شخص اللہ سے غیب اور حاضر میں ڈرتا ہے اس کے بارے میں اللہ تعالی نے خاص طور پر یہ ارشاد فرمایاہے ((اورجنت متقیوں کےقریب کر دی  جائے گی جو دور نہیں ہوگی،یہ وہ بدلہ ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیاجاتاتھا،ہر رجوع کرنے اور (اللہ کے احکام کی)حفاظت کرنے والاکا،جو رحمان سے بن دیکھے ڈرے اور رجوع کرنے والا دل پیش کرے ،داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ یہ ہمیشگی کا گھر ہے ان کے لیے جو کچھ وہ چاہیں گے وہ وہاں ملے گا اور ہماری طرف سے اور بھی زیادہ))۔

اور جن کے دلوں میں اللہ تعالی کی قدر ہلکی ہوتی ہے ،جن کایقین اور ایمان کمزور ہوتا ہے ،وہ ہلاک کرنے والے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں،تنہائی کے اوقات میں گناہوں کی ہلاکت میں پڑھتے ہیں،آسمانوں اور زمین کے رب کی رعایت نہیں کرتے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ((وہ لوگو ں سے تو چھپتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپ سکتے اللہ تعالی ان کےساتھ ہوتاہے جب وہ رات کو ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالی کو پسند نہیں ہیں ))۔میں ان سے کہتا ہوں کہ اس عظیم حدیث کوسنو جو سنن ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ثوبان نے نقل کی ہے کہ:آپ ﷺ کاارشادہے ”میں ایسے لوگوں کو جانتا ہو ں تو قیامت کے دن تہامہ پہاڑ جتنی نیکیاں لائیں گے ،لیکن اللہ تعالی ان کو اڑتے ہوئے غبار کی طرح بنادے گا“ثوبان نے کہا کہ :اے رسول اللہ ! ہمیں ان کے حالات بتا دیجیے،ان کا معاملہ ہماری نظروں میں بڑا ہوگیا،تاکہ ہم ان میں سے ہوں اور معلوم بھی نہ ہو،توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”وہ تمہارے بھائی ہوں گے ،تمہاری جنس میں سے ہوں گے ،رات کو تم جو کچھ لیتے ہو وہ بھی لیں گے ،لیکن یہ ایسے لوگ ہوں گے کہ تنہائی میں اللہ کی حرام کردہ احکام کو کر گذریں گے “۔

ہمیں اس حدیث میں غور و فکر کی انتہائی ضرورت ہے ،خاص اس آخر ی زمانہ میں جس میں فسادپھیل گیا ہے اور گناہوں کے مواقع آسان ہوگئے ہیں ،اکثر اوقات کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی سوائے اللہ کے خوف کے ۔

ہم اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق اور اطاعت کی ادائیگی میں ہماری مدد کرے ،جن سات لوگوں کو اللہ تعالی اپنے عرش کے سائے میں سایہ دے گا ان میں سے وہ شخص بھی ہوگا جس کے بارے میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے :”جس کو حسن اورنسب والی خوبصورت عورت گناہ کی دعوت دے اور وہ کہہ دے کہ میں حہانوں کےرب سے ڈرتا ہوں “ ۔

خطبة: وجوب مراقبة الله.