صبر کی اہمیت

رابط المقال

خطبۂ اول

تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔

امابعد!

        اے مؤمنو! اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو۔ آگاہ رہو کہ وہ سب سے عظیم چیز جس کے ذریعہ تقویٰ حاصل کیا جاتا ہےاو راس کا پھل چُنا جاتا ہے وہ صبر ہے۔

        جان لو کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے صبر کو ایسی سخاوت بنایا ہے جو کم نہیں ہوتی، ایسی تلوار بنایا ہے جو کبھی اپنا نشانہ خطا نہیں کرتی اور ایسا قلعہ بنایا ہے جو نہ منہدم ہوتا ہے اور نہ اس میں دراڑ پڑتی ہے۔ علماء کے صبر کے واجب ہونے کےبارے میں اتفاق ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے بھی اپنے بندوں کو صبر کرنےکا حکم دیا ہے۔ اللہ ﷻ ارشاد فرماتے ہیں: ((اے ایمان والو! صبر اختیار کرو، مقابلے کے وقت ثابت قدمی دکھاؤ، اور سرحدوں کی حفاظت کےلئے جمے رہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔))

        اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے بے صبری سے منع فرمایا۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((غرض (اے پیغمبر!) تم اسی طرح صبر کیے جاؤ جیسے اولو العزم پیغمبروں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔ جس دن یہ لوگ وہ چیز دیکھ لیں گے جس سے انہیں ڈرایا جارہا ہے اس دن (انہیں ) یوں محسوس ہوگا جیسے وہ (دنیا میں ) دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ یہ ہے وہ پیغام جو پہنچا دیا گیا ہے۔ اب برباد تو وہی لوگ ہوں گے جو نافرمان ہیں۔))۔ اللہ ﷻ فرماتے ہیں: (( اور (اے پیغمبر) تم صبر سے کام لو، اور تمہارا صبراللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ اور ان (کافروں) پر صدمہ نہ کرو، اور جو مکاریاں یہ لوگ کررہے ہیں ان کی وجہ سے تنگ دل نہ ہو۔)) اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح وشام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش  میں ایسے لوگوں سےہٹنے نہ پائیں۔ اور کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانوجس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کررکھا ہے، اور جو اپنی خواہشات کے  پیچھے پڑا ہو، اور جس کا معاملہ حد سے گزرچکا ہے۔)) اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے صبر کرنے والوں کی تعریف بیان فرمائی ہے: ((اور تنگی اور تکلیف میں نیز جنگ کے وقت صبر واستقلال کے خوگر ہوں۔ ایسے لوگ ہیں جو سچے (کہلانے کے مستحق) ہیں، اور یہی لوگ ہیں جو متّقی ہیں۔)) اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے صبر کرنے والوں کے لئے اپنی محبّت واجب کی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((اللہ ایسے ثابت قدم لوگوں سے محبّت کرتا ہے۔)) اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے یہ بھی خبر دی ہے کہ صبر کرنے والوں کے صبر میں خیر ہے: ((اور اگر تم صبر ہی کیے رہو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔))اور فرمایا: ((اور اگر صبر ہی کرلو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کےحق میں بہت بہتر ہے۔ )) اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے صبر کرنے والوں سے عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں، ان کا ثواب انہیں بے حساب دیا جائے گا۔))رسول اللہ ﷺ نے یہ خبر بیان فرمائی کہ صبر وہ بہتر چیز ہے جو بندے کو دی جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی شخص کو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع چیز کوئی اور نہیں دی گئی۔‘‘

        مؤمنو صبر کا درجہ اس کی دینی اور شرعی فرضیت سے پہلے زندگی کی ضرورت کا ہے۔ دنیا کی کامیابی اور آخرت کی فلاح صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ صبر کے بغیر نہ امیدیں پوری ہوسکتی ہیں، نہ مقاصد میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے اور نہ کوئی محنت اپنا پھل دیتی ہے۔ اگر صبر نہ ہو تو نہ کسان اپنی کھیتی کاٹ سکتا ہے، نہ درخت لگانے والا اس کا پھل توڑ سکتا ہے اور نہ کوشش کرنے والا اپنا مقصد حاصل کرسکتا ہے۔ دنیا میں اپنے مقاصد کے بارے میں کامیابی حاصل کرنے والوں نے صبر کے ذریعہ سے اپنی امیدوں کو یقینی بنایا ہے۔ لہٰذا کڑوی چیزوں کو  خوشگواری سے کھاؤ، عذاب کی چیز کو میٹھا محسوس کرو، مشکل چیزوں کو ہلکا سمجھو اور کانٹو پر چلو۔ بغیر پریشانی کے تکلیف دہ چیزوں کے احتمال پر ہی اپنی جانوں کو صبر سے مانوس کرو، بغیر اکتاہٹ کے نتائج کا انتظار کرو، بغیر کمزوری کے سامنے آنے والی رکاوٹوں کا سامنا کرو۔ بغیر سستی اور رُکے ہوئے صبر کرنے والوں کے راستہ پر چلو۔اپنے سفر میں تیز چلنے کے لئے یہ حُدی پڑھتے رہو: ’’جو صبر کرتا ہے کامیابی حاصل کرتا ہے۔‘‘

        شاعر مرتد کو للکارتا ہے؎

        مجھے دنوں سے یہ سبق حاصل ہوا ہے کہ

                کہ صبر كا  اثر کرنے والا قابلِ تعریف انجام ہوتا ہے

        بہت  کم اس طرح ہوا ہے کہ کوئی کسی معاملہ میں خوب کوشش کرے

                اور صبر کو لازم پکڑے اور اسے کامیابی نہ ملی ہوئی ہو

        صبر کامیابی کا طریقہ اور بلندیوں کا راستہ ہے۔ دنیا کی بلندی صرف مشقّتوں کو برداشت کرکے اور رنج وغم کے گھونٹ پی کر ہی حاصل ہوتی ہیں۔ جس شخص نے اس راستہ کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرنے کا منصوبہ بنایا تو اس نے صحیح راستہ اختیار کرنے میں غلطی کی اور سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا۔اس کہنےوالے کی بات کتنی سچی ہے:

        کامیابی کو ایک کھجور کی طرح نہ سمجھو کہ تم اسے کھا جاؤ گے، تم کامیابی کو اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ صبرکے ساتھ وابستہ نہ ہوجاؤ۔

اے مؤمنو!

        دنیا اپنی کمزوری اور اس بات کے باوجود کہ وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں ہے، پھر بھی وہ صبر اور صبر میں آگے بڑھے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، جب دنیا کی یہ حالت ہے تو وہ جنت کیسے سستی، اچاٹ  پن، عاجز ہونے اور بے صبری سے حاصل ہوسکتی ہے جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں آسمان اور زمین سماجائیں، جس میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنے اولیاء کے لئے وہ نعمتیں تیار کررکھی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نےسنا ہے اور کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا ہے ؟!

ایمان والو!

        ان نعمتوں کے طالب اور جنّت مانگنے والوں کو صبر کی حاجت اور ضروت بہت زیادہ ہے۔ ان کا راستہ کانٹوں اور مصیبتوں سے بھرا ہوا ہےاور خطرے اور ناپسندیدہ چیزوں سے گھرا ہوا ہے۔

        اے مؤمن تم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے جس فضل، رحمت، عظیم احسان اور  نعمتوں کی امید رکھتے ہو وہ صبر کے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہوسکتیں۔ قرآن کریم کا صبر کو بار بار ذکر کرنے میں  یہی راز ہے، یہاں تک کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تقریبا نوّے مقامات پر صبر کا ذکر کیا ہے۔

اے مؤمنو!

        تم ان کاموں کو کرتے وقت جن کا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے اور ان کاموں کو چھوڑتے وقت جن سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں روکا ہے، بے چینی، ظلم اور مصیبتوں کے وقت صبر کے محتاج ہو۔ تم مرتے دم تک صبر کو لازم پکڑو۔ صبر کی تفصیل یہ ہے:

        اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی فرمانبرداری پر صبر کرنے کا مطلب یہ ہےکہ نفس کو راحت، عیش ، سستی اور بے  بسی پر پیدا کیا گیا ہے۔  وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے احکامات کو پورا کرنے کےلئے صبر،مجاہدہ، برداشت اور مشقت کامحتاج ہے۔

        مثال کے طورپر نیکی کا حکم کرنا اور بُرائی سے روکنا عبادت ہے جو صبر کی محتاج ہے۔ اسی وجہ سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے وقت صبر کا حکم دیا ہے: ((بیٹا! تم نماز قائم کرو، اور لوگوں کو نیکی کی تلقین کرو، اور برائی سے روکو، اور تمہیں جو تکلیف پیش آئے، اُس پر صبر کرو۔ بیشک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔))

        نماز ایسا فریضہ ہے جس کا بار بار حکم دیا گیا ہے وہ بھی صبر اور محنت کی محتاج ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو، اور خود بھی اُس پر ثابت قدم رہو۔ ہم تم سے رزق نہیں چاہتے۔رزق تو ہم تمہیں دیں گے۔ اور بہتر انجام تقویٰ ہی کا ہے۔))

        مؤمنین کی معاشرت، ان کی محبّت کی بقاء، ایک  دوسرے کی غلطی برداشت کرنا، ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہنا اور غیروں کو چھوڑنا ایسی عادتیں ہیں جو صبر اور صبر کی تلقین سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتےہیں: ((اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح وشام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش  میں ایسے لوگوں سےہٹنے نہ پائیں۔ اور کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانوجس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کررکھا ہے، اور جو اپنی خواہشات کے  پیچھے پڑا ہو، اور جس کا معاملہ حد سے گزرچکا ہے۔))

        معزّز بھائیو! خلاصہ یہ ہےکہ  عبادتیں اپنی صورتوں اور اقسام کے اعتبار سے کئی طرح ہونے کے باوجود صبر اور مجاہدہ کی محتاج ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے صبرکو جنّت میں داخل ہونے کا سبب قرار دیا ہے، کیونکہ یہ صبر ہی ہے جو نیکیاں کرنے پر اُبھارتا ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((تم نے (دُنیا میں ) جو صبر سے کام لیا تھا، اس کی بدولت اب تم پر سلامتی ہی سلامتی نازل ہوگی، اور (تمہارے) اصلی وطن میں یہ تمہارا بہترین انجام ہے!)) علّامہ ابنِ قیّم رحمہ اللہ ان جنّتیوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

        انہوں نے تھوڑا سا صبر کیا لیکن انہوں نے ہمیشہ کی راحت حاصل کرلی

                انسان کو کتنی قابلِ عزّت توفیق حاصل ہوئی ہے

        صبر کی دوسری قسم۔ اللہ کے بندو۔ جس کے تم محتاج ہوشہوت اور لذّت کی چیزوں سے صبر کرنا ہے، کیونکہ نفس کا گناہوں کی طرف میلان ہوتا ہے اور وہ شہوانی چیزوں کی طرف دلچسپی لیتا ہے۔ اگر تم اسے تقویٰ کی لگام نہیں ڈالوگے  اور صبر کی حکمت سے اسے نہیں روکو گے تو  نفس گناہوں میں پڑ جائے گااورجرائم سے  آلودہ ہوجائے گا۔ معلوم ہواکہ لہو ولعب سے اعراض اور شہوانی چیزوں سے  بچنا صرف اسی انسان کو حاصل ہوسکتا ہےجس نے مجاہدہ اور صبر کےلباس کو زرہ بنا لیا ہو اور یہ چیز انہی کو ملتی ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں۔اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح وشام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش  میں ایسے لوگوں سےہٹنے نہ پائیں۔ ))

        میرےپیارے بھائی! اگر تمہاری شہوت ایسے مواقع کی دعوت دے جن کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تم پر حرام کردیا ہے تو تم ان سے ضرور صبرکرو، کیونکہ اچھے صبر کاانجام بھلا ہی ہوتا ہے اور آدمی کا سب سے عمدہ اخلاق گناہوں سے محفوظ ہوجانا ہے۔

        جب تمہارا دل گناہ کا خیال ڈالے اور تمہارا لالچ اس بات کی دعوت دے کہ تم اپنے بھائیوں پر ظلم کرو اور ان کے حقوق بغیر کسی وجہ کےلے لو تو  اس سے رک جاؤ اور صبر کرو، کیونکہ صبر کے ذریعہ گناہوں اور مصیبتوں کے وبال سے نجات حاصل ہوتی ہے اور فضیلتیں اور برتری حاصل ہوتی ہے۔

        اے میرے دوست اگر تم بلندی حاصل کرنا چاہتے ہو

                اور بغیر کسی مزاحمت کے اونچی ترقّی چاہتےہو تو

        تم ہر حالت میں اچھی طرح صبر کو لازم پکڑو

                کیونکہ صبر کرنے والا جس چیز کی خواہش رکھتا ہے اس میں ناکام نہیں ہوتا

        صبر کی تیسری قسم جس کا بندہ محتاج ہوتا ہے وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تقدیر پر صبر کرنا ہے۔ آگاہ رہو کہ صبر کی سب سے عظیم قسم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی قضاء پر صبر کرنا ہے۔ صبر کی یہ قسم بھی ایسی ہے کہ انسان اس سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا۔ جب پریشانیاں جم جائیں، ان کی رسیاں پیچیدہ ہوجائیں، تنگیاں پے درپے آئیں،  ان کی راتیں لمبی ہوجائیں، ناپسندیدہ چیزوں اور مصیبتوں کے اندھیرے  گہرے ہوجائیں  اور ان کی سختی شدید ہوجائے تو اس وقت صبر بہترین سواری ہے جس پر بندہ سوار ہوکر ان تاریکیوں کو پار کرجائے اور ان مصیبتوں اور اندھیروں سے نکلنے کے لئے بہتر کامیابی کی چیز ہے۔ صرف صبر ہی ہے جو تمہیں ان تاریکیوں سے نکال سکتا ہے اور ان اندھیروں سے نجات دے سکتا ہے۔ دنیا رنج وغم اور تکلیف دہ چیزوں سے بھری پڑی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتےہیں کہ: (( ہم نے انسان کو مشقّت میں پیدا کیا ہے۔)) ایسا شخص کوئی ہوسکتا ہے جو کسی فکر کی شکایت نہ کرتا ہو ، کسی پریشانی کو برداشت نہ کرتا ہو، نہ مصیبتیں اسے دستک دیتی ہوں اور نہ غم اس پر چھاجاتے ہوں؟!

        یہ ایسی ہی صورتحال ہے جیسی شاعر نے کہی ہے:

        تمہیں تلخیوں پر پیدا کیا گیا ہےاور تم چاہتے

                ہو کہ گندگی اور تلخیوں  سے بچ چاؤ

        ہم میں سے ہر ایک حق تلفی کی شکایت کرتا ہے اور فکریں برداشت کرتا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: (( ہم نے انسان کو مشقّت میں پیدا کیا ہے۔)) یعنی کلفت اور دشواری میں۔

        اس خلقی، تقدیری اور تکوینی حقیقت کے بارے میں لوگوں کی دوقسمیں ہیں:

        ایک قوم وہ ہے جس نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تقدیر کا ناگواری، پریشانی اور گھبراہٹ سے مقابلہ کیا، لہٰذا وہ اپنے دین میں ناکام ہوگئے اور انہوں نے اپنی دنیا کو ضائع کردیا۔ یہ چیزیں نہ مصیبتوں کو اٹھاسکتی ہیں اور  نہ پریشانی  کو ہٹاسکتی ہیں، بلکہ یہ گناہ اور معصیت ہیں۔

        دوسری قوم وہ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا یہ ارشاد یاد کرتے ہیں: ((کوئی مصیبت اللہ کے حکم کے بغیر نہیں آتی، اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔)) 

        لہٰذا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے فیصلہ اور تقدیر پر صبر کرو اور اس بات سے پناہ حاصل کرو جس کی طرف رسول اللہ ﷺ نے تمہاری رہنمائی فرمائی ہے، آپ ﷺ فرماتے ہیں :’’کسی بھی شخص کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ کہے: إنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون۔ اے اللہ مجھے میری مصیبت میں أجردے اور مجھے اس مصیبت کا اچھا بدلہ عطا فرما۔ تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ضرور اسے اس کی مصیبت پر ثواب عطا فرمائیں گے، اور اسے اس کا اچھا بدلہ عطا فرمائیں گے۔ ‘‘

        لہٰذا مصیبت میں إنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون پڑھو اور صبر کرو، تم کامیاب وکامران ہوجاؤ گے۔

دوسرا خطبہ:

أما بعد۔۔۔

        اے اللہ کے بندو! صبر کے درجات اور منزلیں ہیں۔ اس کا سب بلند درجہ رسولوں اور انبیاء علیہم السلام کاہے جنہوں نے صبر کی وجہ سے دنیا اور آخرت کی عزّت پائی۔ ان پیغمبروں  کا صبر جو اللہ کے بھیجے ہوئے احکام لوگوں تک پہنچاتے ہیں، اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جنہیں قتل کردیا گیا، بعض وہ ہیں جنہیں مارا گیا، بعض وہ ہیں جنہیں زخمی کیاگیا، کوڑے لگائے گئے اور جیل میں ڈالا گیا۔ ان حضرات کا صبر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئےتھا اور اسی کی وجہ سے تھا۔

        اے انبیاء کے وارثو، رسالت کا پیغام اٹھانے والو، اسلام کی طرف دعوت دینے والو، شریعت کے علماء، ہوش والو، اہلِ خیر دعوت والو اور اے مؤمنو!

        تم لوگوں میں سے اس صفت کے زیادہ حقدار ہو اور مخلوق میں سے اس زیور کے زیادہ حاجت مند ہو۔ تم بہت عظیم مصیبتوں، بڑی دشواریوں، مشقتوں اور تکلیف دہ چیزوں کا سامنا کروگے جن کا تم بوجھ نہیں اٹھاسکو گے اور انہیں برداشت کرنے سے پہاڑ بھی کمزور پڑجائیں گے، کیونکہ تم لوگوں کو ایک اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عبادت، خواہشات اور شیطان کو چھوڑنے، گناہوں اور شہوانی چیزوں کو ترک کرنے  کی دعوت دیتے ہو اور  ان سے یہ مطالبہ کرتے ہو کہ أمر، نہی، فعل اور ترک میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حدود کے پاس توقّف کرو  ۔ اس وجہ سے تمہارے بہت زیادہ دشمن ہیں اور اکثر مخلوق تمہاری مخالف ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((اور اگر تم زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کےپیچھے چلوگے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کرڈالیں گے۔ وہ تو وہم وگمان کے سوا کسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے، اور ان کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ خیالی اندازے لگاتے رہیں۔))

        لہٰذا تم صبر کے بہت زیادہ محتاج ہو تاکہ ان  گھاٹیوں کو پار کرسکو اور تم مجاہدہ کے بھی بہت زیادہ محتاج ہو تاکہ اس کی وجہ سے اکثر مخلوق کی مخالفت برداشت کرسکو۔ اگر تم نفس کی مشقّت کے باوجود اپنا منہ بھرکر اور اونچی آواز سے  خوشخبری دیتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے  دعوت دو تو تم بہرے کان اور غلاف میں بند دل پاؤ گے۔

        تمہاری بہتر صبر کی طرف بہت زیادہ حاجت ہے جس کے ذریعہ تم ان تکلیفوں پر مدد لو جو تمہیں قولی ، فعلی، حسّی اور معنوی طور پر پہنچیں۔  اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے دشمن کسی بھی مؤمن کے معاملے میں کسی رشتہ داری یا معاہدے کا پاس نہیں کرتے اور علماء، داعین اور اللہ کے بندوں میں سے اولیاء اللہ کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے نہیں رکتے، بلکہ وہ ہر اس شخص کو تکلیف پہنچاتےہیں جو لا إلٰہ إلّا اللہ کہے۔

        خندق والوں کا واقعہ ہم سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اسی طرح اہلِ اسلام کے بہت زیادہ افراد ، آدمیوں، علماء اور داعین کو جو تکلیف، قتل،  مار، قید، جلاوطنی، تنہائی، حقوق اور آزادی کی ضبطی     اور ان کے علاوہ جو تکلیفیں پہنچیں وہ بھی ہم سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔

        لہٰذا اے مؤمنو تم بغیر پریشانی کے تکلیف دہ چیزوں کے احتمال پر اپنی جانوں کو عادی بناؤ، بغیر اکتاہٹ کے نتائج کا انتظار کرو، بغیر کمزوری کے سامنے آنے والی رکاوٹوں کا سامنا کرو، کیونکہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی یہ سنّت اپنے بندوں میں سے  خبیث کو پاکیزہ سے جداکرنےکے لئےہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (((مسلمانو!) تمہیں اپنے مال ودولت اور جانوں کے معاملے میں (اور ) آزمایا جائے گا، اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔اور اگر تم نے صبر اور تقویٰ سے کام لیا تو یقیناً یہی کام بڑی ہمت کے ہیں(جو تمہیں اختیار کرنے ہیں۔)))

        اے انبیاء علیہم السلام کے وارثو! تمہیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی مدد اور حمایت کی تاخیر کے وقت بہت زیادہ صبر کی ضرورت ہے، کیونکہ مدد کا سورج ایسی لمبی رات کے بعد نکلتا ہے جو سخت سیاہ، سختیوں اور محنت سے بھری ہوئی ہوتی ہے، جس کی دہشت کی وجہ سے آنکھیں روتی ہیں اور  اس کی سختی کی وجہ سے  کلیجے منہ کو آنے لگ جاتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (((مسلمانو!) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جنّت میں (یونہی) داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئےتھے جو تم سے پہلے ہوگذرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں، اور انہیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان والے ساتھی بول اٹھے کہ:’’ اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘ یاد رکھو! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔))

        اللہ کے بندے وہ چیز جو سیکھنے، دعوت اور حق کا اعلان کرنے میں صبر پر تمہاری مدد کرے گی وہ یہ ہے کہ تم اچھے انجام اور اس عظیم بدلے  کو دیکھو جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے صبر کرنے والوں کے لئے تیار کررکھا  ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتےہیں: ((جو لوگ صبر سےکام لیتے ہیں، اُن کا ثواب اُنہیں بے حساب دیا جائے گا۔)) اور یہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ تمہارے ساتھ ہیں جو تمہاری مدد اور تائید کریں گے ۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((یقین رکھو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔))

        یہ بات بھی تمہاری صبر کرنے پر مدد کرے گی کہ تم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے کشادگی کا انتظار کرو، کیونکہ فجر سخت اندھیری رات کے بعد ہی طلوع ہوتی ہے۔ اور اچھا انجام نیک لوگوں کا ہے۔

        صبر پر یہ بات بھی تمہاری مدد کرے گی کہ تم پہلے سچے حضرات جیسے انبیاء علیہم السلام اور ان کے علاوہ کے حالات اور جو مشقتیں انہیں پیش آئیں وہ یا دکرو کہ کس طرح اچھا انجام انہی کا ہوا۔ یہ چیز تمہیں ثابت قدم رکھے گی اور صبر دے دی گی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتےہیں: ((غرض (اے پیغمبر!) تم اسی طرح صبر کیے جاؤ جیسے اولو العزم پیغمبروں نے صبر کیا ہے۔))

        اے مؤمنو یہ بات جان لو کہ ہم اس بعد والے زمانے میں صبر کے بہت زیادہ محتاج ہیں، کیونکہ باطل اٹھ کھڑا ہوا ہے اوراس کے مددگار اورکام آنے والے بہت ہیں،  دشمنوں نے ہر بلند زمین اور ہر جانب سے ہمارے سے کھلم کھلا دشمنی کا اعلان کردیا ہے۔ اس بات کی طرف ہماری رہنمائی وہ حدیث  مبارک کرتی ہے جس کو إمام أبو داود، نسائی اور ترمذی نے روایت کیا ہے اوراسے حسن قرار دیا ہے۔ وہ حدیث اپنے تمام طرق کے ساتھ اس طرح ہے: ’’تمہارے بعد صبر کے دن ہیں، ان دنوں میں صبر کرنا ایسے ہوگا جیسے ہاتھ میں انگارے لینا، اس حالات میں جو اسلام کے مطابق عمل کرے گا تو اسے ایسے پچاس آدمیوں کے برابر ثواب ملے گا جو اسی کی طرح عمل کرتے ہوں گے۔‘‘

        یہ بات یاد رکھو کہ صبر اور کامیابی تھکنے اور محنت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

        اپنی محنت کے بقدر انسان کامیابی کو حاصل کرتا ہے

                جو شخص بلندی کو چاہتا ہو اسے چاہئے کہ راتوں کو جاگا کرے۔

خطبة: أهمية الصبر