حقیقت تو یہ ہے کہ پریشانی قسم کھانے میں نہیں ہے ،بلکہ اصل پریشانی تو بعض مردوں کا عورتوں پربے جا مسلط ہونا اور ناحق ان کے اموال کا ہڑپ لینا ہے، اور یہ ایسی پریشانی ہے جس کے سامنے اہلِ علم، اہلِ دعوت اور اہلِ فضل سب کو کھڑا ہونا چاہئے، بلکہ میں تو سارے معاشرے کو یہ دعوت دیتا ہوں کہ آؤ عورت کو انصاف دلائیں، آج مردوں کی طرف سے وہ ظلم کی چکی میں پس رہی ہے ( مرد حضرات خوامخواہ ان پر اپنا رعب دھاب جھاڑتے ہیں اور نا حق ان کے اموال پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں چاہے وہ مال ِمیراث ہو، یا مالِ مرتب، یا اس کے علاہ ) ہم روزانہ مردوں کی طرف سے عورت پر ظلم و ستم کے ایسے دلخراش واقعات سنتے ہیں جن کو سن کر دل غم سے صد پارہ ہو جاتے ہیں ۔
میں ایسے مرد حضرات کو آقائے دوجہاںﷺکیاایک وعیدانہ فرمان سے متنبہ کرتا ہوں کہ آپﷺنے بطور وعید کے فرمایا کہــــــ’’جس شخص نے ایسی جھوٹی قسم کھائی جس کے ذریعے وہ کسی مسلمان کا مال ہتھیانا چاہے توقیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غصہ ہونگے‘‘۔ (متفق علیہ) اور آپ ﷺکا اک اور فرمان بھی ہے کہ ’’کسی آدمی کا مال اس کے طیبِ نفس کے بغیر جائز نہیں‘‘۔ (رواہ احمد والدارقطنی والبیھقی و حسنہ) اب اس شخص کے لئے کیسے حلال ہوگا جو عورتوں سے بڑے بڑے مال لیتا ہے اور پھر ان کا انکار کرتا ہے؟ بلکہ تم ایسے مرد بھی پاؤ گے کہ پہلے عورت سے بہت سارا مال لے لیتا ہے پھر اسی مال پر اس سے شادی کر لیتا ہے اور یہ عورت کے ساتھ بہت بڑا فریب اور حد درجہ ستم ہے۔
رہی بات قسم کی تو میں اس میں کچھ کہنا نہیں چاہتا، کیونکہ قسم ایسی چیز ہے جو قسم کھانے والے کے ساتھ خاص ہے، لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا قسم طلاق سے مانع ہے؟ جواب: نہیں، قسم طلاق سے مانع نہیں ہے بلکہ طلاق واقع ہوگئی ہے۔
اور آپکی غیر موجودگی میں طلاق واقع ہوگئی ہے، کیونکہ طلاق حضور و غیاب دونوں حالتوں میں واقع ہو جاتی ہے، لیکن بہرکیف جس پریشانی کے دور سے آپ گزر رہی ہیں اس میں میں آپکو تسلی دیتا ہوں اور آپکو اس خدائے غالب وبرتر کی طرف متوجہ کرتا ہوں ، جس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ نہیں، اور آپ بھی اللہ تعالیٰ کو دوہائی دیں کہ وہ آپکو اس آدمی سے انصاف دلا دے۔
آپکا بھائی
أ۔د؍خالد المصلح
۵؍۳؍۱۴۳۳ھ