×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

نموذج طلب الفتوى

لم تنقل الارقام بشكل صحيح

/ / اور ان کے پاس سے لوگ اچک لئے جاتے ہیں

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

یقینا تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں ، اور اللہ رب العزت سے اپنی جانوں کے شر اور اپنے اعمال کی برائیوں سے پناہ مانگتے ہیں ۔ جس کو اللہ ہدایت دے دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو گمراہ کردے اس کا تم کوئی دوست اور رہنمائی کرنے والا نہیں پاؤ گے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اولین وآخرین کا معبود ہے ، وہ نہایت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاللہ تعالیٰ کے بندے ، رسول اور اس کے منتخب کردہ اور تمام مخلوق میں سب سے بہترین دوست ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قیامت تک لئے ہدایت اور دین حق دے کر انہیں دعوت دینے والا اللہ کی اجازت کے ساتھ اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ۔ آپﷺنے رسالت کی تبلیغ کی ، امانت کی ادائیگی کی ، امت کونصیحت کی، اور اللہ کی رضا کے لئے جہاد کیایہاں تک آپﷺاپنے خالق حقیقی سے جاملے اور وہ اسی روش پر تھے۔ آپ ﷺپر اورآپ کے اہل وعیال پر اور تمام صحابہ پر اور جو بھی آپﷺکی اقتداء کرے اللہ کی رحمتیں ہوں ۔ امابعد۔۔۔ اے ایمان والو!  اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کاحق ہے ، کیونکہ تقوی دنیا و آخرت کی ہر سعادت کا سبب ہے ، اور تقوی سے پیچھے ہٹنا اور تقوی کا نہ ہونا دنیا و آخرت کی تمام بدبختیوں کا سبب ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :  (ترجمہ)  ’’اور اللہ نجات دے گا ان لوگوں کو جنہوں نے تقوی اختیار کیا ان کی کامیابیوں کی وجہ سے انہیں نہ تو کوئی برائی چھوئے گی اور نہ ہی وہ رنجیدہ ہوں گے ‘‘۔ اللہ پاک انہیں ہراس شر اور ہراس چیز سے بچا کر نجات دے گا جس کا انہیں ڈر اور خوف ہوگا ، انہیں وہ پہنچائے گا جس کی وہ امید رکھتے ہیں انہیں دنیا و آخرت کے سکون ، سعادت اور رونق تک پہنچائے گا۔  اے ایمان والے اللہ کے بندو!  یقینا اللہ پاک نے تمام رسولوں کو اس لئے بھیجا تاکہ وہ اس وحدہ لا شریک کی عبادت کریں ، اور لوگوں کو اس اکیلے اللہ کی عبادت کی طرف بلائیں جس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔یقینا اس عبادت کی بنیاد اللہ پر ایمان ، اس کے رسولوں پر ایمان، آخرت کے دن پر ایمان ، اور جو کچھ ارکان ایمان اور اصول میں شامل ہے ان سب پر ایمان لانا، کیو نکہ آپس کے جوڑ اور محبت و الفت سے ثابت ہوتا ہے ، یقینا ایمان والوں کے باہم جوڑ اور محبت والفت سے پیدا ہوتا ہے ۔ اور اسی کی بنیاد پر آپﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک تم ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک ایمان نہیں لا سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، کیا میں اس چیز کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کروں کہ جب تم اسے انجام دو تو تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگ جاؤ ؟ (وہ یہ ہے کہ) کہ آپس میں سلام کو پھیلاؤ‘‘۔  یقینا جس سلام کا اللہ کے نبی نے پھیلانے کا حکم دیا ہے وہ صرف کلمات نہیں کہ بس ان کا القاء ہوجائے اور ان کا دل پر کوئی اثر نہ ہو ، ان کا معاملات پر کوئی اثر نہ ہو ، اور ان کا روز مر ہ کی زندگی پر کوئی اثر نہ ہو۔ یقینا سلام کا معنی ہر اچھائی کے پہنچانے ، ہر برائی کو روکنے ، ہر اچھائی اوراحسان کو اٹھانے ، ہر اذیت اور تکلیف دہ عمل سے رکنا ہے ۔ اسی لئے آپﷺمسلمان کے لئے ایک مجمل سا وصف بتا کر ایک پیمانہ بنادیا کہ جس پر کوئی بھی شخص اپنے سلام کو پرکھ سکے ۔ اسی پر اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایاجیسا کہ صحیحین میں مذکور ہے :’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان امور کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے ‘‘۔ پس جس قدر دوسرے لوگ تمہاری زبان ، ہاتھ اور دل کی تکلیف دینے سے بچیں گے اسی قدر تمہارے اندر دوسروں کی بنسبت اعلیٰ ایمان اور اسلام متحقق ہوگا۔ اسی لئے ایک ایمان والے کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنے آپ میں اور اپنے تمام طریقوں میں ان عادت کے متحقق کرنے کو دیکھے تاکہ وہ اپنے اسلام کو پرکھ سکے ۔ اے ایمان والو!  یقینا نبی کریم ﷺنور ہدایت سے پر رسالت پیغام لے کر آئے ، جس کا سب سے بڑ اعنوان اور طریقہ اور اس دعوت کے دلائل میں سے اللہ پاک کے احکامات میں سے وہ حکم ہے جو کسی سے مخفی نہیں ہے ، اللہ کا ارشاد ہے :  (ترجمہ)  ’’ اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ‘‘ ،  پس نبی کریمﷺلوگوں کے لئے رحمت بن کر آئے اور اس رحمت سے کوئی بھی موافق یا مخالف  پیچھے نہیں ہٹ سکتا، کیونکہ یہ رحمت ہر شخص کو شامل ہے جو آپ ﷺپر ایمان لایا اور جو آپﷺپر ایمان نہیں لایا اور آپﷺسے اعراض کیاسب کو شامل ہے ، اور اس رحمت کی بنیاد اچھائی کا پہنچانا اور عدل کا ثابت کرنا ہے ۔ اے اللہ کے بندو!  یقینالوگ سلامتی ، رحمت ،عدل اور اپنی دنیاو آخرت کی بھلائیوں کو اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک انہیں ان کی جانوں ، ان کے اموال ، ان کی عقلوں اور اور ان تمام چیزوں میں امن نہ حاصل ہوجائے جن کی انہیں بھلائیوں کے لئے ضرورت ہو۔ اسی لئے آپ ﷺایک مبارک زندگی گزارنے کے لئے امن کی قیمت کو مختصر الفاظ میں بیان فرمایاجیسا کہ ترمذی شریف میں عبیداللہ بن محصن انصاری ؓ روایت فرماتے ہیں کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے تم میں سے اس حالت میں صبح کی کہ اس کے جسم میں عافیت ، اس کے گھر میں امن اور اس کے پاس اس کے اس دن کا کھاناہو تو گویا کہ دنیا اس کے لئے جمع کردی گئی‘‘۔یعنی گویاکہ اس کے لئے دنیا کا تمام سامان ، تمام نعمتیں ان تین امور کے ثابت ہونے پر جمع کردی گئیں ہوں ، وہ تین امور یہ کہ اپنی جان اور مجموعی طور پر امن ، صحت کے لحاظ سے امن اور غذا کے لحاظ سے امن ۔ پس لوگوں کی زندگی میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کا تحقق و ثبوت امن کے تحقق پر موقوف ہے ۔ اور امن تب تک متحقق نہیں ہوسکتا جب تک االلہ کی قائم کردہ حدود اور شریعت پر کاربند نہ ہواجائے ، کیونکہ اللہ پاک نے امن کو اپنے بندوں اور اپنے اولیاء کو بطور جزاء اور بدلہ کے عطا ء کیا ہے ۔ پس جیسے ہی لوگ ایمان کو ثابت اور متحقق کریں گے اور احکام پر عمل پیرا ہوں گے تو ان کے لئے امن کے دروازے کھل جائیں گے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں چھوئے گی یا ان پر کوئی مکروہ چیز نازل نہیں ہوگی۔نہیں۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ لوگ اپنے اعمال کا مزچکھیں جو ان کے رجوع اور درستگی کا سبب بنے ، اللہ کا ارشاد ہے :  (ترجمہ)  ’’ خشکی اور سمندر میں جو بھی فساد واقع ہوتا ہے تو وہ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے تاکہ انہیں مزہ چکھائے ان بعض اعمال کا جو انہوں نے کئے تاکہ وہ لوٹ آئیں ‘‘  لیکن ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے ایک یہ امن خاص احوال اور واقعات کے ساتھ شامل ہواور دوسرا یہ کہ امن کا دخول تمام امت کے مجموعہ پر ہو پس ان دونوں صورتوں میں امن کی شکلیں مختلف ہوں گی ۔ اسی لئے سب سے بڑی نعمت جس کا احساس اور جس کی قدر کا جاننا سب کے لئے مناسب ہے وہ امن کی نعمت ہے ، کیونکہ تمام نعمتیں امن سے ہی پھوٹتی ہیں ، پس جہاں امن غائب ہوجاتاہے تو اس وقت بڑے فسادات اور پھیلے ہوئے شرور کو دعوت مل جاتی ہے، اور اللہ پاک لوگوں کو دین کی سلامتی اور اسلامی احکام پر قیام کرنے میں جو توفیق امن کی حالت میں عطاکرتے ہیں اس کا ادراک وہ جدائی ، جھگڑوں اور خوف کی حالت میں نہیں کرسکتے ۔ اے اللہ ہمیں ہمارے ملکوں میں امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور سربراہان کی اصلاح فرما اور ہم پر ان کو سرداری عطا فرما جو تجھ سے ڈرے اور تقوی اختیار کرے اور جو تیری رضا کی پیروی کرے. آمین   -دوسرا خطبہ-   تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، ہم اسی کی حمد و ثنا ء بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ، اور ہم اللہ پاک سے اپنے نفس کے شرور اور اپنے اعمال کی برائیوں سے پناہ مانگتے ہیں ، جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو گمراہ کردے تو آ پ اس کے لئے کوئی راہ دکھانے والا اور کوئی دوست نہیں پائیں گے، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں ، اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ آپ ﷺپر اور آپ ﷺکی اقتدا ء کرنے والوں پر قیامت تک رحم فرمائے. آمین امابعد۔۔۔ اے اللہ کے بندو!  اللہ سے ڈرو، اللہ سے ایسا سچا تقوی اختیار کرو جو اچھائیوں کو کھینچتا ہے ، اللہ سے ایسا تقوی اختیار کرو جو مصائب اور آزمائشوں کو دفع کردے۔ اللہ کے ساتھ ایسا سچا تقوی اختیار کرو جس کی بدولت تم دنیا و آخرت کی خوش بختی کو حاصل کرسکو۔ اے اللہ تو ہمیں اپنے متقی بندوں ، اپنی کامیاب جماعت اور اپنے نیک بندوں میں شامل فر ما! اے ایمان والوں جب کوئی شخص ایسے لوگوں کے حالات جو امن کھو چکے ہوں دیکھتا ہے جو اس کے لئے عبرت کا سامان ہے ، ان حالات میں اس کے لئے کیا عبر ت ہے ؟ کیونکہ جب انسان امت کے حالات اور ا ن کے امن کے کھونے اور امن کے کھونے کے بعد کی ان کی زندگی کو دیکھتا ہے تو یہ چیز اس کو غور و فکر اور ا س کے اسباب اور نتائج پر غور کرنے پر آمادہ کرتی ہے ۔اور وہ بھی اس بات میں حریص اور لالچی ہوجاتا ہے کہ اس کے ساتھ وہ واقعات پیش نہ آئیں جو دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آئے اور جو مصائب ان پر نازل ہوئے وہ اس پر نازل نہ ہوں ، اور یقینا ہمارے اردگرد میں امن کا کھو جاناجس کا ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ہم پر واجب ہے کہ ہم اس سے نصیحت اور عبرت حاصل کریں ۔ یقینا ان علاقوں میں امن کا کھوجانا عبرت اور نصیحت ہے کیونکہ امن کے کھوجانے پر نہ دنیا کا قیام ہے اور نہ ہی دین کی صلاح ہے ۔ لہٰذا امن کی حفاظت کرنے کے لئے سب کو شریک ہونے کی ضرورت ہے ، یہ صرف ایک جماعت یا صرف ایک علاقے کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جگہ جہاں وہ رہ رہا ہے اپنے ملک اور اپنے اردگرد امن کی حفاظت کرے کیونکہ یہ ایسی اچھائی ہے جس میں ہم سب کابقدر طاقت اور استعداد کے شریک ہونا ضروری ہے اور اسی طرح ہمارے دشمنوں کا ہماری تاک میں بیٹھنا اور ہم پرہمارے ملک کے بعض نوجوانوں کو مسلط کرکے ہم پر زور حاسل کرنے کی کوشش چاہے یہ تسلط ’’تسلط کلامی ‘‘ ہو جیسے آپس میں شر، لڑائی ، جھگڑے ، فتنہ و فساد اور آپس میں جدائی کے ذریعہ ہو، یا عملی طور پر جیسا کہ ہمارے ملک کے بعض نوجوان مسلح ہوکرا س کے امن کو مختلف حوادث کے ذریعہ ڈگمگانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان سب امور اکھٹا کرنے والا اور جامع سبب وہ صرف یہ ہے کہ ہمارے ممالک کو ہر برائی اور شر کے ساتھ ہدف بنانا تاکہ اس کی وحدت اور امن کو ختم کیا جاسکے۔  یقینا اسی میں سے ایک واقعہ اس جماعت کا ہے جس گزشتہ رمضان میں ملک کے اطراف و جوانح میں سرکشی کی ، اور اسی طرح گزشتہ ایام میں ایک جماعت نے سرکشی کرتے ہوئے شہریوں کو قتل کردیا ، یہ سب ایک ہی طریقہ پر چلنے والے ہیں اس سے نہ تو حق قائم ہوگا اور نہ ہی یہ اصلاح کی کوشش ہے ، اور کئی نیکو کار شخص اس کو نیک بھی نہیں گردان سکتا۔یقینا یہ زمین میں فسا د ہے اور ہم میں سے ہر ایک اس حادثے کا ہدف ہے ، اوران واقعات کا لگاتار اور مسلسل پیش آنا جن کے ذریعے ہم قوت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یقینا ہم صبح و شام اللہ کی نعمتوں میں زندگی گزار رہے ہیں اوراس کی بدولت ہمارا شکر بھی کم ہوگیا۔ پس ہم اللہ سے معافی مانگتے ہیں اس سب پر جو ہم نے اس کے حق میں کوتاہی کی ہے ، دوسری صورت میں اگر ہم خبردار نہ ہوئے اس نعمت کی حفاظت کے لئے اور مفسدوں کا راستہ ختم کرنے کے لئے کسی بھی طریقہ یا نیک عمل کے ذریعہ تو اس صورت میں ہم بہت بڑے خطرے کا شکارہونے والے ہیں ۔ یقینا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے قبلہ میں انتشار پیدا کردیں ہم سیر وسیاحت کرتے اور جنگل و بیابان اور صحراؤں میں سفر کرتے ہیں ہم میں کوئی شخص اپنی گاڑی پر سوار ہوتا ہے اور ہزاروں کلو میٹر کا سفربلاکسی خوف و خطر کے طے کرلیتاہے اور اسی کو اللہ کے علاوہ کسی کا ڈرمانع نہیں ہوتا ۔ اگر امن میں خلل واقع ہوجائے تو کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ نعمت باقی رہے گی؟ اللہ کی قسم ہم میں نہ تو کوئی اپنے کام پردوام حاصل کرسکے گا اور نہ ہی ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرسکے گاالا یہ کہ وہ اپنے ساتھ اسلحہ رکھے اور اس اسلحہ کی موجودگی بھی اسے اپنی جان پر امن حاصل نہیں ہوگا۔ اس لئے ہم پرواجب ہے کہ ہم اس خطرہ کو محسوس کریں کہ ہمارا دین ، امن اور ہمارے کاروبار ہدف بن چکے ہیں اس لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم ہوش میں آجائیں ، اس کی حفاظت کرناصرف ان لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے جو امن پر مامو رہیں ، یقینا وہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں مگر امن کی تحقیق و تثبیت کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں جب تک ہم ان کی مدد ، ان کے ساتھ محبت ، ا ن کے ساتھ نیکی اور جواز کے سبب کو پانہ لیں ۔ اور کسی نے ان شریر لوگوں کے اس عمل کو جائز قرار دیا جنہوں نے جزرۂ عرب کے مشرقی صوبہ کے شہریوں پر سرکشی کی اورامن کے محافظ عملہ کو ’’قصیم‘‘ میں قتل کیاپس وہ جواز کا قائل شخص بھی اس خون میں برابر کا شریک ہے جو ناحق بہایا گیا ہے اور اس کا بھی ان کے ساتھ بو جھ میں حصہ ہوگا ان کے برے اعمال اور جو وہ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ میں اس عظیم رب سے جو عرش عظیم کا مالک ہے سوال کرتاہوں کہ وہ ہم سے اور آپ سب سے اس آزمائش کودورکردے ، اور ان ملکوں کو گھات لگانے والوں سے محفوظ فرمائے ۔ اے اللہ !  ہمارے قول کو ہدایت اورحق پر جمع فرما۔ اے اللہ !  ہمارے دلوں میں الفت پیدا فرمااور ہماری اصلاح فرما۔ اے اللہ !  جو ہمارے درمیان شر وفساد، فرقہ بازی اور لڑائی جھگڑے کی کوشش کرے تو تو ا س کے مکرو فریب کو واپس اس کی گردن میں ڈال دے اور اسے اس کام رسوا کردے ، اور اس کی کوششوں کو ناکارہ کرکے اس کے سب منصوبوں کو ناکام کردے اور اس پر برائی کا چکر ڈال دے ۔ اے اللہ !  ہمیں اپنے متقی بندوں ، کامیاب جماعت اور اپنے اولیاء کی صف میں شامل فرما۔ اے اللہ !  ہمیں ہمارے ملکوں میں امن فرما۔ اے اللہ !  ہمارے ائمہ اور سربراہان کی اصلاح فرمااور ہم پر ایسے سربراہان مقر ر فرما جو تجھ سے ڈرے ، تقوی اختیا ر کرے اور تیری رضا کی پیروی کرے ۔ اے اللہ ! ہمارے امن کے پیکر لوگوں کوان اعمال کی توفیق عطا فرماجن میں ملک و قوم کی بھلائی ہو ۔ اے اللہ !  ان کی مدد اوراصلاح فرمااور انہیں بصیرت عطا فرما۔ اے اللہ !  ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے ۔ (آمین ثم آمین) ويتخطف الناس من حولهم

المشاهدات:2437

یقینا تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں ، اور اللہ رب العزت سے اپنی جانوں کے شر اور اپنے اعمال کی برائیوں سے پناہ مانگتے ہیں ۔ جس کو اللہ ہدایت دے دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو گمراہ کردے اس کا تم کوئی دوست اور رہنمائی کرنے والا نہیں پاؤ گے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اوّلین وآخرین کا معبود ہے ، وہ نہایت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ تعالیٰ کے بندے ، رسول اور اس کے منتخب کردہ اور تمام مخلوق میں سب سے بہترین دوست ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قیامت تک لئے ہدایت اور دینِ حق دے کر انہیں دعوت دینے والا اللہ کی اجازت کے ساتھ اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ۔ آپنے رسالت کی تبلیغ کی ، امانت کی ادائیگی کی ، امت کونصیحت کی، اور اللہ کی رضا کے لئے جہاد کیایہاں تک آپاپنے خالقِ حقیقی سے جاملے اور وہ اسی روِش پر تھے۔

آپ پر اورآپ کے اہل وعیال پر اور تمام صحابہ پر اور جو بھی آپکی اقتداء کرے اللہ کی رحمتیں ہوں ۔

امابعد۔۔۔

اے ایمان والو!  اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کاحق ہے ، کیونکہ تقوی دنیا و آخرت کی ہر سعادت کا سبب ہے ، اور تقوی سے پیچھے ہٹنا اور تقوی کا نہ ہونا دنیا و آخرت کی تمام بدبختیوں کا سبب ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :  (ترجمہ)  ’’اور اللہ نجات دے گا ان لوگوں کو جنہوں نے تقوی اختیار کیا ان کی کامیابیوں کی وجہ سے انہیں نہ تو کوئی برائی چھوئے گی اور نہ ہی وہ رنجیدہ ہوں گے ‘‘۔ اللہ پاک انہیں ہراس شر اور ہراس چیز سے بچا کر نجات دے گا جس کا انہیں ڈر اور خوف ہوگا ، انہیں وہ پہنچائے گا جس کی وہ امید رکھتے ہیں انہیں دنیا و آخرت کے سکون ، سعادت اور رونق تک پہنچائے گا۔

 اے ایمان والے اللہ کے بندو!  یقینا اللہ پاک نے تمام رسولوں کو اس لئے بھیجا تاکہ وہ اس وحدہ لا شریک کی عبادت کریں ، اور لوگوں کو اس اکیلے اللہ کی عبادت کی طرف بلائیں جس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔یقینا اس عبادت کی بنیاد اللہ پر ایمان ، اس کے رسولوں پر ایمان، آخرت کے دن پر ایمان ، اور جو کچھ ارکانِ ایمان اور اصول میں شامل ہے ان سب پر ایمان لانا، کیو نکہ آپس کے جوڑ اور محبت و الفت سے ثابت ہوتا ہے ، یقینا ایمان والوں کے باہم جوڑ اور محبت والفت سے پیدا ہوتا ہے ۔

اور اسی کی بنیاد پر آپنے ارشاد فرمایا: ’’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک تم ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک ایمان نہیں لا سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، کیا میں اس چیز کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کروں کہ جب تم اسے انجام دو تو تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگ جاؤ ؟ (وہ یہ ہے کہ) کہ آپس میں سلام کو پھیلاؤ‘‘۔  یقینا جس سلام کا اللہ کے نبی نے پھیلانے کا حکم دیا ہے وہ صرف کلمات نہیں کہ بس ان کا اِلقاء ہوجائے اور ان کا دل پر کوئی اثر نہ ہو ، ان کا معاملات پر کوئی اثر نہ ہو ، اور ان کا روز مر ہ کی زندگی پر کوئی اثر نہ ہو۔ یقینا سلام کا معنی ہر اچھائی کے پہنچانے ، ہر برائی کو روکنے ، ہر اچھائی اوراحسان کو اٹھانے ، ہر اذیت اور تکلیف دہ عمل سے رکنا ہے ۔ اسی لئے آپمسلمان کے لئے ایک مجمل سا وصف بتا کر ایک پیمانہ بنادیا کہ جس پر کوئی بھی شخص اپنے سلام کو پرکھ سکے ۔ اسی پر اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایاجیسا کہ صحیحین میں مذکور ہے :’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان امور کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے ‘‘۔

پس جس قدر دوسرے لوگ تمہاری زبان ، ہاتھ اور دل کی تکلیف دینے سے بچیں گے اسی قدر تمہارے اندر دوسروں کی بنسبت اعلیٰ ایمان اور اسلام متحقق ہوگا۔ اسی لئے ایک ایمان والے کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنے آپ میں اور اپنے تمام طریقوں میں ان عادت کے متحقق کرنے کو دیکھے تاکہ وہ اپنے اسلام کو پرکھ سکے ۔

اے ایمان والو!  یقینا نبی کریم نورِ ہدایت سے پُر رسالت پیغام لے کر آئے ، جس کا سب سے بڑ اعنوان اور طریقہ اور اس دعوت کے دلائل میں سے اللہ پاک کے احکامات میں سے وہ حکم ہے جو کسی سے مخفی نہیں ہے ، اللہ کا ارشاد ہے :  (ترجمہ)  ’’ اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ‘‘ ،  پس نبی کریملوگوں کے لئے رحمت بن کر آئے اور اس رحمت سے کوئی بھی موافق یا مخالف  پیچھے نہیں ہٹ سکتا، کیونکہ یہ رحمت ہر شخص کو شامل ہے جو آپ پر ایمان لایا اور جو آپپر ایمان نہیں لایا اور آپسے اعراض کیاسب کو شامل ہے ، اور اس رحمت کی بنیاد اچھائی کا پہنچانا اور عدل کا ثابت کرنا ہے ۔

اے اللہ کے بندو!  یقینالوگ سلامتی ، رحمت ،عدل اور اپنی دنیاو آخرت کی بھلائیوں کو اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک انہیں ان کی جانوں ، ان کے اموال ، ان کی عقلوں اور اور ان تمام چیزوں میں امن نہ حاصل ہوجائے جن کی انہیں بھلائیوں کے لئے ضرورت ہو۔ اسی لئے آپ ایک مبارک زندگی گزارنے کے لئے امن کی قیمت کو مختصر الفاظ میں بیان فرمایاجیسا کہ ترمذی شریف میں عبیداللہ بن محصن انصاری ؓ روایت فرماتے ہیں کہ آپنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے تم میں سے اس حالت میں صبح کی کہ اس کے جسم میں عافیت ، اس کے گھر میں امن اور اس کے پاس اس کے اس دن کا کھاناہو تو گویا کہ دنیا اس کے لئے جمع کردی گئی‘‘۔یعنی گویاکہ اس کے لئے دنیا کا تمام سامان ، تمام نعمتیں ان تین امور کے ثابت ہونے پر جمع کردی گئیں ہوں ، وہ تین امور یہ کہ اپنی جان اور مجموعی طور پر امن ، صحت کے لحاظ سے امن اور غذا کے لحاظ سے امن ۔ پس لوگوں کی زندگی میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کا تحقق و ثبوت امن کے تحقق پر موقوف ہے ۔ اور امن تب تک متحقق نہیں ہوسکتا جب تک االلہ کی قائم کردہ حدود اور شریعت پر کاربند نہ ہواجائے ، کیونکہ اللہ پاک نے امن کو اپنے بندوں اور اپنے اولیاء کو بطورِ جزاء اور بدلہ کے عطا ء کیا ہے ۔ پس جیسے ہی لوگ ایمان کو ثابت اور متحقق کریں گے اور احکام پر عمل پیرا ہوں گے تو ان کے لئے امن کے دروازے کھل جائیں گے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں چھوئے گی یا ان پر کوئی مکروہ چیز نازل نہیں ہوگی۔نہیں۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ لوگ اپنے اعمال کا مزچکھیں جو ان کے رجوع اور درستگی کا سبب بنے ، اللہ کا ارشاد ہے :  (ترجمہ)  ’’ خشکی اور سمندر میں جو بھی فساد واقع ہوتا ہے تو وہ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے تاکہ انہیں مزہ چکھائے ان بعض اعمال کا جو انہوں نے کئے تاکہ وہ لوٹ آئیں ‘‘  لیکن ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے ایک یہ امن خاص احوال اور واقعات کے ساتھ شامل ہواور دوسرا یہ کہ امن کا دخول تمام امت کے مجموعہ پر ہو پس ان دونوں صورتوں میں امن کی شکلیں مختلف ہوں گی ۔

اسی لئے سب سے بڑی نعمت جس کا احساس اور جس کی قدر کا جاننا سب کے لئے مناسب ہے وہ امن کی نعمت ہے ، کیونکہ تمام نعمتیں امن سے ہی پھوٹتی ہیں ، پس جہاں امن غائب ہوجاتاہے تو اس وقت بڑے فسادات اور پھیلے ہوئے شرور کو دعوت مل جاتی ہے، اور اللہ پاک لوگوں کو دین کی سلامتی اور اسلامی احکام پر قیام کرنے میں جو توفیق امن کی حالت میں عطاکرتے ہیں اس کا ادراک وہ جدائی ، جھگڑوں اور خوف کی حالت میں نہیں کرسکتے ۔

اے اللہ ہمیں ہمارے ملکوں میں امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور سربراہان کی اصلاح فرما اور ہم پر ان کو سرداری عطا فرما جو تجھ سے ڈرے اور تقوی اختیار کرے اور جو تیری رضا کی پیروی کرے. آمین

 

-دوسرا خطبہ-

 

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، ہم اسی کی حمد و ثنا ء بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ، اور ہم اللہ پاک سے اپنے نفس کے شرور اور اپنے اعمال کی برائیوں سے پناہ مانگتے ہیں ، جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو گمراہ کردے تو آ پ اس کے لئے کوئی راہ دکھانے والا اور کوئی دوست نہیں پائیں گے، ٍاور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں ، اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمداللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ آپ پر اور آپ کی اقتدا ء کرنے والوں پر قیامت تک رحم فرمائے. آمین

امابعد۔۔۔

اے اللہ کے بندو!  اللہ سے ڈرو، اللہ سے ایسا سچا تقوی اختیار کرو جو اچھائیوں کو کھینچتا ہے ، اللہ سے ایسا تقوی اختیار کرو جو مصائب اور آزمائشوں کو دفع کردے۔ اللہ کے ساتھ ایسا سچا تقوی اختیار کرو جس کی بدولت تم دنیا و آخرت کی خوش بختی کو حاصل کرسکو۔ اے اللہ تو ہمیں اپنے متقی بندوں ، اپنی کامیاب جماعت اور اپنے نیک بندوں میں شامل فر ما!

اے ایمان والوں جب کوئی شخص ایسے لوگوں کے حالات جو امن کھو چکے ہوں دیکھتا ہے جو اس کے لئے عبرت کا سامان ہے ، ان حالات میں اس کے لئے کیا عبر ت ہے ؟ کیونکہ جب انسان امت کے حالات اور ا ن کے امن کے کھونے اور امن کے کھونے کے بعد کی ان کی زندگی کو دیکھتا ہے تو یہ چیز اس کو غور و فکر اور ا س کے اسباب اور نتائج پر غور کرنے پر آمادہ کرتی ہے ۔اور وہ بھی اس بات میں حریص اور لالچی ہوجاتا ہے کہ اس کے ساتھ وہ واقعات پیش نہ آئیں جو دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آئے اور جو مصائب ان پر نازل ہوئے وہ اس پر نازل نہ ہوں ، اور یقینا ہمارے اردگرد میں امن کا کھو جاناجس کا ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ہم پر واجب ہے کہ ہم اس سے نصیحت اور عبرت حاصل کریں ۔ یقینا ان علاقوں میں امن کا کھوجانا عبرت اور نصیحت ہے کیونکہ امن کے کھوجانے پر نہ دنیا کا قیام ہے اور نہ ہی دین کی صلاح ہے ۔ لہٰذا امن کی حفاظت کرنے کے لئے سب کو شریک ہونے کی ضرورت ہے ، یہ صرف ایک جماعت یا صرف ایک علاقے کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جگہ جہاں وہ رہ رہا ہے اپنے ملک اور اپنے اردگرد امن کی حفاظت کرے کیونکہ یہ ایسی اچھائی ہے جس میں ہم سب کابقدر طاقت اور استعداد کے شریک ہونا ضروری ہے اور اسی طرح ہمارے دشمنوں کا ہماری تاک میں بیٹھنا اور ہم پرہمارے ملک کے بعض نوجوانوں کو مسلط کرکے ہم پر زور حاسل کرنے کی کوشش چاہے یہ تسلط ’’تسلطِ کلامی ‘‘ ہو جیسے آپس میں شر، لڑائی ، جھگڑے ، فتنہ و فساد اور آپس میں جدائی کے ذریعہ ہو، یا عملی طور پر جیسا کہ ہمارے ملک کے بعض نوجوان مسلّح ہوکرا س کے امن کو مختلف حوادث کے ذریعہ ڈگمگانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان سب امور اکھٹا کرنے والا اور جامع سبب وہ صرف یہ ہے کہ ہمارے ممالک کو ہر برائی اور شر کے ساتھ ہدف بنانا تاکہ اس کی وحدت اور امن کو ختم کیا جاسکے۔

 یقینا اسی میں سے ایک واقعہ اس جماعت کا ہے جس گزشتہ رمضان میں ملک کے اطراف و جوانح میں سرکشی کی ، اور اسی طرح گزشتہ ایام میں ایک جماعت نے سرکشی کرتے ہوئے شہریوں کو قتل کردیا ، یہ سب ایک ہی طریقہ پر چلنے والے ہیں اس سے نہ تو حق قائم ہوگا اور نہ ہی یہ اصلاح کی کوشش ہے ، اور کئی نیکو کار شخص اس کو نیک بھی نہیں گردان سکتا۔یقینا یہ زمین میں فسا د ہے اور ہم میں سے ہر ایک اس حادثے کا ہدف ہے ، اوران واقعات کا لگاتار اور مسلسل پیش آنا جن کے ذریعے ہم قوت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یقینا ہم صبح و شام اللہ کی نعمتوں میں زندگی گزار رہے ہیں اوراس کی بدولت ہمارا شکر بھی کم ہوگیا۔

پس ہم اللہ سے معافی مانگتے ہیں اس سب پر جو ہم نے اس کے حق میں کوتاہی کی ہے ، دوسری صورت میں اگر ہم خبردار نہ ہوئے اس نعمت کی حفاظت کے لئے اور مفسدوں کا راستہ ختم کرنے کے لئے کسی بھی طریقہ یا نیک عمل کے ذریعہ تو اس صورت میں ہم بہت بڑے خطرے کا شکارہونے والے ہیں ۔ یقینا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے قبلہ میں انتشار پیدا کردیں ہم سیر وسیاحت کرتے اور جنگل و بیابان اور صحراؤں میں سفر کرتے ہیں ہم میں کوئی شخص اپنی گاڑی پر سوار ہوتا ہے اور ہزاروں کلو میٹر کا سفربلاکسی خوف و خطر کے طے کرلیتاہے اور اسی کو اللہ کے علاوہ کسی کا ڈرمانع نہیں ہوتا ۔ اگر امن میں خلل واقع ہوجائے تو کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ نعمت باقی رہے گی؟ اللہ کی قسم ہم میں نہ تو کوئی اپنے کام پردوام حاصل کرسکے گا اور نہ ہی ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرسکے گاالا یہ کہ وہ اپنے ساتھ اسلحہ رکھے اور اس اسلحہ کی موجودگی بھی اسے اپنی جان پر امن حاصل نہیں ہوگا۔

اس لئے ہم پرواجب ہے کہ ہم اس خطرہ کو محسوس کریں کہ ہمارا دین ، امن اور ہمارے کاروبار ہدف بن چکے ہیں اس لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم ہوش میں آجائیں ، اس کی حفاظت کرناصرف ان لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے جو امن پر مامو رہیں ، یقینا وہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں مگر امن کی تحقیق و تثبیت کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں جب تک ہم ان کی مدد ، ان کے ساتھ محبت ، ا ن کے ساتھ نیکی اور جواز کے سبب کو پانہ لیں ۔ اور کسی نے ان شریر لوگوں کے اس عمل کو جائز قرار دیا جنہوں نے جزرۂ عرب کے مشرقی صوبہ کے شہریوں پر سرکشی کی اورامن کے محافظ عملہ کو ’’قصیم‘‘ میں قتل کیاپس وہ جواز کا قائل شخص بھی اس خون میں برابر کا شریک ہے جو ناحق بہایا گیا ہے اور اس کا بھی ان کے ساتھ بو جھ میں حصہ ہوگا ان کے برے اعمال اور جو وہ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔

میں اس عظیم رب سے جو عرشِ عظیم کا مالک ہے سوال کرتاہوں کہ وہ ہم سے اور آپ سب سے اس آزمائش کودورکردے ، اور ان ملکوں کو گھات لگانے والوں سے محفوظ فرمائے ۔

اے اللہ !  ہمارے قول کو ہدایت اورحق پر جمع فرما۔

اے اللہ !  ہمارے دلوں میں الفت پیدا فرمااور ہماری اصلاح فرما۔

اے اللہ !  جو ہمارے درمیان شر وفساد، فرقہ بازی اور لڑائی جھگڑے کی کوشش کرے تو تُو ا س کے مکرو فریب کو واپس اس کی گردن میں ڈال دے اور اسے اس کام رسوا کردے ، اور اس کی کوششوں کو ناکارہ کرکے اس کے سب منصوبوں کو ناکام کردے اور اس پر برائی کا چکر ڈال دے ۔

اے اللہ !  ہمیں اپنے متقی بندوں ، کامیاب جماعت اور اپنے اولیاء کی صف میں شامل فرما۔

اے اللہ !  ہمیں ہمارے ملکوں میں امن فرما۔

اے اللہ !  ہمارے ائمہ اور سربراہان کی اصلاح فرمااور ہم پر ایسے سربراہان مقر ر فرما جو تجھ سے ڈرے ، تقوی اختیا ر کرے اور تیری رضا کی پیروی کرے ۔

اے اللہ ! ہمارے امن کے پیکر لوگوں کوان اعمال کی توفیق عطا فرماجن میں ملک و قوم کی بھلائی ہو ۔

اے اللہ !  ان کی مدد اوراصلاح فرمااور انہیں بصیرت عطا فرما۔

اے اللہ !  ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے ۔

(آمین ثم آمین)

ويتخطف الناس من حولهم

الاكثر مشاهدة

1. خطبة : أهمية الدعاء ( عدد المشاهدات83531 )
3. خطبة: التقوى ( عدد المشاهدات78493 )
4. خطبة: حسن الخلق ( عدد المشاهدات72766 )
6. خطبة: بمناسبة تأخر نزول المطر ( عدد المشاهدات60762 )
7. خطبة: آفات اللسان - الغيبة ( عدد المشاهدات55138 )
9. خطبة: صلاح القلوب ( عدد المشاهدات52322 )
12. خطبة:بر الوالدين ( عدد المشاهدات49591 )
13. فما ظنكم برب العالمين ( عدد المشاهدات48321 )
14. خطبة: حق الجار ( عدد المشاهدات44930 )
15. خطبة : الإسراف والتبذير ( عدد المشاهدات44247 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف