×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / ’’ اللہ نہ کرے‘‘ ہمارا یہ کہنا اور اس کا حکم

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

کسی شخص نے ایک ایسی چیز (جو اس کو پسند نہ تھی) کے بارے میں یہ کہا ’’اللہ نہ کرے اگر ایسا ہوا تو میں۔۔۔‘‘ کہا کیا اس کا یہ کہنا شریعت کے خلاف ہے ؟ حكم قولنا: لا قدر الله

المشاهدات:1496

کسی شخص نے ایک ایسی چیز (جو اس کو پسند نہ تھی) کے بارے میں یہ کہا ’’اللہ نہ کرے اگر ایسا ہوا تو میں۔۔۔‘‘ کہا کیا اس کا یہ کہنا شریعت کے خلاف ہے ؟

حكم قولنا: لا قدر الله

الجواب

اس جیسی دعا میں نے نہ حدیث کی کتابوں میں دیکھی ہے اور نہ ہی سلف صالحین اور ائمہ کرام کی کتابوں میں دیکھی ہے ۔ میری رائے ہے کہ اس طرح دعا کے ذریعے سائل اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کرتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسا امر نہ پیش آئے جسے وہ نہ پسند کرتا ہو۔ہاں اس جیسی اور دعائیں کتاب اللہ اور حدیث میں وارد ہیں جیسا کہ فرمانِ الہٰی ہے :(ترجمہ)  ’’اے ہمارے رب ہمیں وہ عطا کر جو آپ نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے وعدہ کیا ہے اور ہمیں قیامت والے دن رسوانہ کربیشک آپ وعدہ خلافی نہیں کرتے ‘‘۔ (آل عمران : ۱۹۴)اور حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی دعا بھی ہے :(ترجمہ)  ’’اور مجھے فضیلت والے دن رسوا نہ کر‘‘ (الشعراء:۸۷) اور جو سورۂ بقرہ کے آخرمیں آیا ہے : (ترجمہ)  ’’اے ہمارے رب ہماری خطاؤں اور بھول کی وجہ سے ہماری پکڑ نہ فرما‘‘۔ البقرہ:۲۸۶

اسی میں سے آپکی وہ دعا بھی ہے جوآپجنازے کے وقت پڑھتے تھے ۔(ترجمہ)  ’’اے ہمارے رب !  ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ فرما اور اس کے بعد ہمیں گمراہ ہونے سے بچا‘‘۔اور یہ حدیث ترمذی میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے اس طرح کی دعا ئیں اور بھی ملتی ہیں اور نہ اس میں کوئی حرج ہے کیونکہ یہ ادعیہ مشروعہ کے حکم میں ہیں ۔ لیکن ان الفا ظ کے ساتھ دعا کرنا کہ ’’اللہ نہ کرے ‘‘ اس میں اور جو ہم نے ذکر کیا ہے دونوں میں تضاد ہے اور وہ یوں کہ ایک ہے اللہ سے سوال کرنا کہ یا اللہ ایسا کام نہ ہو ۔ نہ کہ یہ سوال کرنا کہ اللہ ایسا نہ کرے ۔ اور دونوں میں بہت فرق ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرنا کہ ’’یہ کام نہ ہو‘‘ اس کی کوئی دلیل یا شاہد میر ے علم میں نہیں ۔ جیسا کہ اس طرح سوال کرنا حدیث میں اس کی عدم مشروعیت وارد ہوئی ہے اس لئے کہ یہ بے فائدہ ہے کیونکہ جب ام حبیبہ ؓ نے یہ کہا:’’ اے اللہ !  مجھے اپنے شوہر (رسول اللہ ) اور اپنے باپ (ابوسفیان) اور اپنے بھائی (معاویہ) سے مستفید کرتے رہنا۔ آپنے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ: تم نے اللہ تعالیٰ سے مقررہ اوقات ، معدودہ ایام اور تقسیم شدہ ارزاق کے بارے میں سوال کیا اللہ تعالیٰ ہرگز کسی چیز کو اس سے پہلے  اس میں جلدی نہیں کرتے اور نہ ہی اس میں تاخیر کرتے ہیں ‘‘۔

تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:’’تم نے اللہ سے وہ کچھ مانگا جس کا فیصلہ ہوچکا ہے اور رزق تقسیم ہوچکا ہے اللہ کسی بھی چیز کو اس کے وقت سے پہلے یا مؤخر نہیں کرتے‘‘۔ (مسلم:۲۶۶۳) اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس قسم کی دعا کو ترک کرنا چاہئے اور نہ اللہ سے معین ضرر کوے دفع ہونے کی دعا کی جائے ۔ واللہ أعلم۔

آپ کا بھائی

خالد المصلح


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127308 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62447 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58490 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55639 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55144 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51727 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49860 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44097 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف