×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / حائضہ کا قرآن کی تلاوت شفاء حاصل کرنے کی نیت سے کرنا

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

حائضہ عورت کا قرآن کی تلاوت شفاء حاصل کرنے کی نیت سے کرنے کا کیا حکم ہے ؟ اور روزانہ خاص طور پر سورۂ بقرہ کی تلاوت شفاء حاصؒ کرنے کی نیت سے کرنے کا کیا حکم ہے؟ قراءة الحائض للقرآن بنية الاستشفاء

المشاهدات:1804

حائضہ عورت کا قرآن کی تلاوت شفاء حاصل کرنے کی نیت سے کرنے کا کیا حکم ہے ؟ اور روزانہ خاص طور پر سورۂ بقرہ کی تلاوت شفاء حاصؒ کرنے کی نیت سے کرنے کا کیا حکم ہے؟

قراءة الحائض للقرآن بنية الاستشفاء

الجواب

امابعد

جہاں تک حائضہ کے قرآن کی تلاوت کی بات ہے تو اس میں علماء کے دو قول ہیں ، ایک اہل علم کی جماعت نے کہا ہے کہ حائضہ قرآن کی بالکل تلاوت نہیں کرسکتی نہ ہی مصحف سے اور نہ ہی زبانی اور انہوں نے استدلال کیا ہے احمد اور اصحاب سنن کی روایت کردہ حدیث سے کہ عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبینے ارشاد فرمایا:’’حائضہ اور جنبی بالکل قرآن نہیں پڑھ سکتے ‘‘ اور یہ حدیث ممانعت کے استدلال کے طور پر پیش کی جاتی ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ اس کی سند ضعیف ہے بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے تو کہا: اہل علم کا اس کے ضعف پر اتفا ق ہے ، لہٰذا اگر یہ حدیث ضعیف ہے ، علوم حدیث کے علماء کے اتفاق سے تو اس سے حکم ثابت نہیں ہوتا، اسی وجہ سے علماء کا اختلاف ہوا تو بعض نے اسی حدیث کو لیا اوریہی قول مذاہب اربعہ کا علماء اور دیگر حضرات کا بھی ہے ۔

اور امام مالکؒ کا مذہب یہ ہے کہ اس کی ایک امام ابوحنیفہ سے بھی روایت ہے اور امام بخاری ؒ نے بھی اسے اختیا ر کیا ہے اور ابن تیمیہؒ اور اہل علم کی ایک جماعت بھی اسی کی قائل ہے کہ کوئی بات نہیں کہ حائضہ عورت مصحف کو چھوئے بغیر قرآن کی تلاوت کرے ، یعنی حفظاََ پڑھے کسی آلہ (موبائل وغیرہ) پر پڑھے کیونکہ یہ آلات قرآن کے حکم میں نہیں اور دیکھ کر پڑھے ، یاایسی صورت بناکر پڑھے کہ اپنے اور مصحف کے درمیان کو ئی چیز حائل ہو ، یا دستانے پہن لے یا اس کے علاوہ کوئی صورت ہو تو کوئی حرج نہیں ، لیکن وہ مصحف کو چھو کر نہیں پڑھ سکتی کیونکہ آپ ْکا فرمان ہے کہ:’’قرآن کو پاکیزہ لوگ ہی چھوئے ‘‘۔

اس حدیث میں اگر چہ کلام ہوا ہے جیسا کہ ابن عبدالبر نے کہا ہے لیکن امت کا اس کو قبول کرنااور اس میں درج الکلمات کو لینااس با ت پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کوکوئی نہیں چھوئے گا مگر جو طاہر ہو۔ اور یہی جمہور علماء نے فرمایا اور ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔

اور امام داؤد اور ظاہریہ کا مذہب یہ ہے کہ قرآن کو چھونے سے منع کرنے کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں اور یہی اس مسئلہ میں دوسرا قول ہے اور یہ ایسا استدلال کرتے ہیں کہ حدیث ضعیف ہے لیکن ابن عبدالبر کاامت کے اس حدیث کو قبول کرنے کے بارے میں کلام ہے اس کی سند میں کلام سے مستغنی کریتاہے جیسا کہ انہوں نے خود بھی فرمایا۔

دونوں اقوال میں سے ارجح یہ ہے کہ انسان بغیر طہارت کے قرآن کو مس کرنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی حاجت اس بات کی داعی ہو تو اس کا کچھ مختلف حکم ہے۔ اور چاہے کہ مباشرتاََ قرآن کو نہ مس کرے بلکہ اس کو اطراف سے پکڑے نہ کہ مکتو ب حروف کو چھوئے ۔ اور جہاں تک سورۂ بقرہ کی بات ہے تو اس کو پڑھنا باعث برکت ہے جیسا کہ نبیفرمایا، ابوامامہؓ کی حدیث ہے ـ:’’روشن کردینے والیوں کی تلاوت کرویعنی بقرہ اور آل عمران کی، کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن شفاف بادلوں کی طرح آئیں گی اور پڑھنے والے پر سایہ کریں گی‘‘۔ اور ایک اور روایت میں ہے کہ :’’سورۂ بقرہ کی تلاوت کرو‘‘ (رواہ مسلم) کیونکہ ا س کو پڑھنا برکت ہے اور چھوڑنا حسرت ہے اور باطل لوگ اس کو نہیں پڑھ سکتے ‘‘تو آپنے فرمایاکہ سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا باعث برکت ہے اور اس کو چھوڑنا چھوڑدینے والے پر حسرت ہے ، چاہے اس نے تلاوت چھوڑی ہو یا اس میں مذکورہ احکام کو چھوڑاہو ۔

اور آپ کا فرمان ’’باطل لوگ‘‘ ا س سے مراد سحر کرنے والے ہیں کیونکہ سورۂ بقرہ میں سحر کے توڑ کی واضح آیات موجود ہیں ۔ اور کسی شخص کا اس سورت کو روزانہ پڑھنا اس کا اپنا فعل ہے لیکن یہ حدیث میں مذکور نہیں ۔ ہمارا یہ کہنا کہ فلاں عمل سنت ہے مشروع ہے یا یہ کہنا کہ جائز ہے یا یہ کہنا کہ بدعت ہے اس سب میں فرق ہے ۔ بدعت کی تعریف تو یہ ہے کہ دین میں کوئی نئی چیز پیدا کردینا جس کی کوئی اصل نہ ہو ، اور سنت وہ ہے جو نبیسے قولاََ یا فعلاََ ثابت ہوئی ہو یا آپسے کسی عمل کو دیکھ کرسکوت فرمایاہو۔ اور جہاں تک جائز یا مباح کی بات ہے تو اس سے مراد ہے کوئی ایسا عمل کرنا جس کی مشروعیت پر ادلہ کا عموم ہو یا جو عموم میں درج ہوتا ہو کوئی اس کی دلیل خاص نہ ہو اور علماء اس کی مثال تلبیہ سے دیتے ہیں جیسا کہ آپکے صحابہ تلبیہ پڑھتے تھے اور کوئی ان کو منع نہیں کرتاتھا کوئی یہ الفاظ کہتا تھا :’’لبیک و سعدیک والخیر فی یدیک والرغباء الیک ۔۔۔الخ‘‘ آپاس کو سنتے تو تھے اور یہ ایسے اذکار ہیں جو آپنے نہیں کہے اور آپنے اس سے زیادہ الفاظ نہیں کہے :’’لبیک اللھم لبیک ، لبیک لا شریک لک لبیک ، ان الحمد والنعمۃ ، لک والملک لا شریک لک‘‘۔

اورنسائی کی روایت میں ہے ’’لبیک الہ الحق‘‘ لیکن آپدیگر تلبیہ کے الفاظ بھی سنتے تھے مگر منع نہیں کرتے تھے تو یہ اس بات کی دلیل ہوئی کہ وہ بھی مباح ہیں لیکن اس کو سنت نہیں کہا جائے گا کیونکہ آپنے نہیں کہے اور نہ ہی یہ وارد ہوا ہے کہ آپان الفاظ کے تلبیہ ہونے پر اقرارکیاہو تاکہ یہ کہا جاسکے کہ یہ وہ تلبیہ ہے جس پر آپنے اقرار فرمایاہو کہ یہ سنت اقراریہ بن جائے


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127715 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62716 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59363 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55720 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55188 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52094 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50047 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45059 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف