امابعد
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
صحابہ ٔ رسول ﷺاور تابعین اور ان کے بعد کے حدیث و فقہ کے جمہور علماء کا یہ مذہب ہے کہ جنبی کے لئے قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے ۔اور انہوں نے ایسی دلیلوں سے استدلا ل کیا ہے جن کی مثالیں خمسہ نے شعبہ عن عمر و بن قرہ عن عبداللہ ب سلمہ عن علیؓ کے طریق سے روایت کی ہیں فرماتے ہیں کہ آپﷺبیت الخلا ء سے نکلے اور ہمیں قرآن پڑھایا اور ہمارے ساتھ گوشت تناول فرمایااور انہیں جنابت کے علاوہ قرآن سے کوئی چیز نہیں روکتی تھی ‘‘۔اس حدیث پر کلام ہوا ہے عبداللہ بن سلمہ کی حافظہ کے بدلنے کی وجہ سے اور امام احمدؒ نے اس کوضعیف قرار دیا ہے اور امام ترمذی ابن سکن اور عبدالحق اشبیلی رحمہم اللہ نے اس صحیح قرار دیا ہے اور علماء کی ایک جماعت جنبی کے لئے قرآن پڑھنے کی قائل ہے۔اور یہ ابن عباس ؓ اور ابن المسیب ؒ سے روایت ہے اور داؤد ظاہری ؒ بھی یہی کہتے ہیں ۔ اور ابن حزم ؒ اور ظاہریہ کا یہی مذہب ہے اور ابن منذر نے بھی اس کو اختیار کیا ہے ۔
اب رہی بات تسبیحات اور تما م اذکار کی تو ان سے جنبی وغیرہ کو منع نہیں کیا جائے گا چاہے وہ جہراََسے کرے یا سرّاََ کرے اور امام ترمذی ؒ نے جمہور کے قول کو جو حائضہ اور جنبی کے قرآن پڑھنے سے منع کے بارے میں کہا ہے کہ :’’جنبی اور حائضہ کو تسبیح وتہلیل کرنے میں علماء نے رخصت دی ہے اور امام نوویؒ نے مجموع شرح المہذب (۱۸۹/۲) اور اپنی کتاب اذکار میں اس کے جواز پر اجماع نقل کیاہے