×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / سورۂ فاتحہ کی قرأت کے متعلق ابن نصراللہ کا بہوتی کے ساتھ اختلاف

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

ابن نصراللہ کا بہوتی کے ساتھ اختلاف کشاف القناع (۲۰۶/۲) میں آیا ہے :(اگر کسی نے سورۂ فاتحہ میں سے ایک حرف بھی چھوڑدیا تو اس کو شمار نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ اس نے اس کو پڑھا ہی نہیں بلکہ اس نے اس کا بعض حصہ پڑھا ہے یا اس میں سے مشدد کرکے ترک کردیاتو پھر بھی اسے شمار نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ تشدید حرف کے بمنزلہ ہے اور حرف مشدد دو حروف کے قائم مقام ہے ، جب اس نے تشدید میں خلل ڈال دیا تو اس طرح اس نے حرف میں بھی خلل ڈال دیا ۔ ابن نصراللہ نے (شرح الفروع ) میں کہا ہے : یہ تب ہے جب اس کا محل فوت ہوجائے اور اس سے بعید ہوجائے ، اس لئے کہ اس طرح موالاۃ (پے درپے پڑھنے ) میں خلل واقع ہوتاہے ، اور اگر وہ اس کے قریب ہو اور کلمہ کا اعادہ کرلے تو پھر وہ اس کے لئے کافی ہوجائے گا ، اس لئے کہ یہ ایسا ہوجائے گا جیسا کہ اس نے اس کو بطور غلطی کے کہا اور پھر وہ اس کو صحیح کرکے لائے ۔ فرماتے ہیں: یہ سب اس کے نماز کے عدم بطلان کا تقاضہ کرتا ہے ، اور اس کا مقتضاء یہ ہے کہ:وہ تشدید بطور سہو اور غلطی کے ہو ، اور اگر اس نے اس کو قصد و ارادہ سے چھوڑدیا ہو تو پھر مذہب کا قاعدہ یہ ہے کہ اس کی نماز باطل ہوگئی ۔ اگر وہ اس کے محل سے منتقل کرلے ۔ جیسے اس کے علاوہ اور ارکان کی طرح ، اور اگر وہ جب تک اس کے محل میں رہے اور وہی اس کا حرف ہے تو پھر اس کی نماز باطل نہیں ہوئی ۔ ابن نصراللہ نے بہوتی کے کلام پر تعلیقا کہا : یہ بات قابل غور ہے کہ فاتحہ ایک رکن ہے جس کا محل قیام ہے، نہ کہ ہر حرف اس کا رکن ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ابن نصراللہ اور بہوتی کے درمیان اختلاف کی حقیقت کیا ہے اور صحیح بات کیا ہے اور یہ کہ کیا سورۂ فاتحہ ایک مستقل رکن ہے یا پھر ہر حرف ایک الگ رکن ہے حنابلہ کے مذہب کے مطابق؟ خلاف ابن نصر الله مع البهوتي حول قراءة الفاتحة

ابن نصراللہ کا بہوتی کے ساتھ اختلاف کشاف القناع (۲۰۶/۲) میں آیا ہے :(اگر کسی نے سورۂ فاتحہ میں سے ایک حرف بھی چھوڑدیا تو اس کو شمار نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ اس نے اس کو پڑھا ہی نہیں بلکہ اس نے اس کا بعض حصہ پڑھا ہے یا اس میں سے مشدد کرکے ترک کردیاتو پھر بھی اسے شمار نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ تشدید حرف کے بمنزلہ ہے اور حرفِ مشدد دو حروف کے قائم مقام ہے ، جب اس نے تشدید میں خلل ڈال دیا تو اس طرح اس نے حرف میں بھی خلل ڈال دیا ۔ ابن نصراللہ نے (شرح الفروع ) میں کہا ہے : یہ تب ہے جب اس کا محل فوت ہوجائے اور اس سے بعید ہوجائے ، اس لئے کہ اس طرح موالاۃ (پے درپے پڑھنے ) میں خلل واقع ہوتاہے ، اور اگر وہ اس کے قریب ہو اور کلمہ کا اعادہ کرلے تو پھر وہ اس کے لئے کافی ہوجائے گا ، اس لئے کہ یہ ایسا ہوجائے گا جیسا کہ اس نے اس کو بطورِ غلطی کے کہا اور پھر وہ اس کو صحیح کرکے لائے ۔ فرماتے ہیں: یہ سب اس کے نماز کے عدمِ بطلان کا تقاضہ کرتا ہے ، اور اس کا مقتضاء یہ ہے کہ:وہ تشدید بطورِ سہو اور غلطی کے ہو ، اور اگر اس نے اس کو قصد و ارادہ سے چھوڑدیا ہو تو پھر مذہب کا قاعدہ یہ ہے کہ اس کی نماز باطل ہوگئی ۔ اگر وہ اس کے محل سے منتقل کرلے ۔ جیسے اس کے علاوہ اور ارکان کی طرح ، اور اگر وہ جب تک اس کے محل میں رہے اور وہی اس کا حرف ہے تو پھر اس کی نماز باطل نہیں ہوئی ۔ ابن نصراللہ نے بہوتی کے کلام پر تعلیقاََ کہا : یہ بات قابلِ غور ہے کہ فاتحہ ایک رکن ہے جس کا محل قیام ہے، نہ کہ ہر حرف اس کا رکن ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ابن نصراللہ اور بہوتی کے درمیان اختلاف کی حقیقت کیا ہے اور صحیح بات کیا ہے اور یہ کہ کیا سورۂ فاتحہ ایک مستقل رکن ہے یا پھر ہر حرف ایک الگ رکن ہے حنابلہ کے مذہب کے مطابق؟

خلاف ابن نصر الله مع البهوتي حول قراءة الفاتحة

الجواب

 ابن نصراللہ اور بہوتی کے درمیان جو اختلاف ہے وہ اس بات میں ہے کہ جب نمازی سورۂ فاتحہ میں سے کوئی حرف قصداََ ترک کردے جیسا کہ ابن نصراللہ نے کہا ہے کہ :(اگر وہ قصداََ ترک کردے تو پھر مذہب کا قاعدہ اس کی نماز کے باطل ہونے کا تقاضہ کرتاہے ۔ اگر وہ اس کے محل سے منتقل ہوجائے ۔ جیسا اس کے علاوہ اور ارکان ، اور اگر جب تک وہ اپنے اس محل میں ہے اور وہی اس کا حرف ہے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوئی ۔ انتھی) پس ابن نصراللہ کے نزدیک اگر نمازی قصداََ سورۂ فاتحہ میں سے ایک حرف بھی چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی جیسا کہ اگر وہ کوئی رکن مثلا رکوع سجدہ وغیرہ قصداََ چھوڑدے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی اوراگر وہ رکوع کے لئے لوٹ بھی جائے تو یہ اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگا ، اور بہوتی کی رائے یہ ہے کہ اگر وہ عمداََ کوئی حرف چھوڑدے پھر وہ لوٹ کر اسے پڑھ لے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی ، اور ان کے قول کی حجت یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ ساراکا سارا ایک ہی رکن ہے نہ کہ اس کا ہر ہر حرف ایک الگ رکن ہے بلکہ وہ سارے حروف ایک رکن کے اجزاء ہیں اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ جو چیز مختلف اجزاء سے مرکب ہو تو وہ اپنے ایک جز ء کے منعدم ہونے سے منعدم ہوجاتی ہے ۔

لیکن میرے خیال میں بہوتی کا مذہب ہی صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔

آپ کا بھائی

خالد بن عبد الله المصلح

04/11/1424هـ


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127567 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62665 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59197 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55708 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55177 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52029 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50018 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45024 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف