حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
اما بعد۔۔۔
کسی شخص کی بات یا ہیئت کی نقل اتارنا اگر کسی مصلحت کی بناء پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بخاری (۳۴۷۷) اور مسلم(۱۷۹۲) نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’گویا میں نبی ﷺکی طرف دیکھ رہا ہوں اور وہ انبیاء میں سے ایک نبی کی نقل اتار رہے ہیں ، وہ نبی جن کو ان کی قوم نے مارا حتی کہ وہ جان دے بیٹھے ، اس حالت میں کہ وہ اپنے چہرے سے خون صاف کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے: اے اللہ ! میری قوم کی بخشش فرما دے چونکہ وہ علم نہیں رکھتے‘‘۔ اور اسی طرح بعض صحابہ ؓ نے آپ ﷺکی قرأت کی نقل اتاری۔ جیسا کہ عبداللہ بن مغفل نے آپ ﷺکی سورۃ الفتح کی قرأت کی نقل اتاری جیسا کی بخاری (۷۵۴۱) میں مروی ہے اور نقل سے مراد یہاں یہ ہے کہ کسی فعل کی صورت میں یا کسی قول کے وصف میں نقل اتاری جائے۔
اور اگر کسی شخص کے قول یا فعل یا اس کی صورت بنا کر نقل اسی لئے اتاری جائے کہ ہنسنا ہنسانا مقصود ہو تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ یہ باعث تکلیف اور مذاق اڑانے کی صورتیں ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے ایمان والو! کوئی جماعت کسی دوسری جماعت (قوم) کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو‘‘۔ (الحجرات: ۱۱)۔ اور نبی ﷺنے فرمایا: ’’کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں‘‘۔ رواہ البخاری (۱۰) و المسلم (۴۰)۔ اس حدیث کو عبداللہ بن عمر ؓ نے روایت کیا ہے ۔ اور اہل علم کی ایک جماعت نے تو نقل اتارنے کو بھی غیبت میں شمار کیا ہے جیسا کی صاحب کتاب ’الزواجر عن اقتراف الکبائر‘ (۳۴/۲) اور صاحب کتاب ’کشاف القناع‘ (۴۲۳/۶) نے ذکر کیا ہے۔ کیونکہ یہ آپ ﷺکے اس قول میں داخل ہے، فرمایا: ’’کیا تمہیں پتہ ہے غیبت کیا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا: تمہارے اپنے بھائی کا ایسا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو‘‘۔ یہ روایت مسلم (۲۵۸۹) نے ابو ہرہ ؓ سے نقل کی ہے۔
آپ کا بھائی
أ.د. خالد المصلح
30 /12 /1425هـ