جس عورت کا حمل پے در پے ہو اور اس کو قضاء کی طاقت نہ ہو اس کے لئے کیا حکم ہے؟
تتابع حملها ولم تستطع القضاء
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.
وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.
ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر
على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004
من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا
بارك الله فيكم
إدارة موقع أ.د خالد المصلح
جس عورت کا حمل پے در پے ہو اور اس کو قضاء کی طاقت نہ ہو اس کے لئے کیا حکم ہے؟
تتابع حملها ولم تستطع القضاء
الجواب
حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے کہ
اس میں آپ پر کوئی حرج نہیں ہے اورجب آپ کو استطاعت ہوتو جودن آپ کے ذمے لازم ہوچکے ہیں ان کا روزہ رکھ لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (جوتم میں سےمریض ہویاسفر میں ہو تو اس پر گنتی کے روزے ہے دوسرے دنوں کی) (البقرۃ:۱۸۵) یہ فرض روزوں کا حکم ہے پس قضاء روزوں کا بھی یہی معاملہ ہوگا توجب تک اسے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تواس کے لئے روزہ رکھنا اس وقت ہوگا جب اسے قدرت حاصل ہوجائے۔ اورممکن ہے کہ حمل کی مدت اتنی لمبی ہوجائے کہ رمضان کا مہینہ بھی داخل ہوجائے تو اس کو آنے والے رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی قدرت حاصل نہیں ہوگی تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس رمضان کے گزرنے کے بعد روزہ رکھ لے۔ اور اس کے ذمہ صرف روزہ ہی ہے کھانا کھلانا نہیں۔ اور جن لوگوں نے یہ کہا ہےکہ جب رمضان سے روزہ موخر کرے تواس کے ذمہ اب کھانا کھلانا ہے ،توان کے اس قول کا مطلب بھی یہ ہے کہ جب اس طرح تاخیر کرنا اس نے بغیر عذر کے کیا ہو۔اور اس عورت نے توعذر کی بنا پر تاخیر کی ہے۔
اور جورمضان کے بعد شوال ،ذی قعدہ، اورذی الحجہ وغیرہ کےمہینوں کا وقت گزرا تو اس کا بھی کوئی کفارہ نہیں کیونکہ اس فریضے میں بڑی وسعت ہے نہ توقضاء رکھنے کے حوالے سے کوئی تنگی ہے اور نہ اس سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ قضاء اول وقت ہی میں کرے لہذا جب اسے عذر پیش آیا اور یہ عذر رمضان تک جاری رہا تویہ معذورہ ہے۔