×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / فجر کی اذان کے وقت میں نے پانی پی لیا تو اب میرے روزے کا کیا حکم ہے؟

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

فجر کی اذان جیسے ہی شروع ہوئی مجھے کھانسی ہونے لگی جس کی وجہ سے میں نے پانی بیا یہ جانتے ہوئے کہ اذان ابھی ختم نہیں ہوئی، میری علم کے مطابق تو اس لمحے میں پانی پینا جائز تھا، آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟ شربت الماء مع أذان الفجر فما حكم صيامي؟

المشاهدات:3810

فجر کی اذان جیسے ہی شروع ہوئی مجھے کھانسی ہونے لگی جس کی وجہ سے میں نے پانی بیا یہ جانتے ہوئے کہ اذان ابھی ختم نہیں ہوئی، میری علم کے مطابق تو اس لمحے میں پانی پینا جائز تھا، آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟

شربت الماء مع أذان الفجر فما حكم صيامي؟

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((کھاؤ  پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے واضح ہو جائے)) [البقرہ:۱۸۷] آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اگر فجر واضح ہو جائے تو کھانا،پینا اور جماع کچھ جائز نہیں ۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اسی پر ایک حدیث بھی دلالت کر رہی ہے جو کہ صحیحین میں ابن عمر اور عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ((بلال رات کے وقت اذان دیتا ہے، لہذا کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دے))، اور جہاں تک سنن ابی داؤد کی روایت کا تعلق ہے جو کہ ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی نے فرمایا: ((اگر تم میں سے کوئی اذان سنے اس حالت میں کہ برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اس کو تب تک نہ رکھے جب تک اس سے ضرورت پوری کر چکے)) تو یہ ضعیف ہے، ابو حاتم نے علل میں اسے ضعیف قرار دیا ہے اور حاکم نے مستدرک میں اسے صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے: یہ حدیث مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن شیخین نے اس کو ذکر نہیں کیا۔ ابن مفلح نے فروع میں لکھا ہے(۷۰/۳): اگر یہ حدیث صحیح ہے تو اس کا مطلب ہے جب تک طلوع فجر متحقق نہ ہوا ہو، اور بیہقی نے سنن میں کہا ہے(۲۱۸/۴): اگر یہ صحیح ہے تو اس کو محمول کیا جائے گا اس صورت پر کہ اسے پتہ چل گیا ہو کہ اذان دینے والا طلوع فجر سے پہلے اذان دے رہا ہے اور اس کا پانی پینا فجر کی نماز سے پہلے ہو۔

اس بنیاد پر مؤذن حسابی کیلنڈر کے مطابق اذان دے رہا تھا جس سے طلوع فجر متحقق نہیں ہوتا تو میری رائے میں تو اذان کے وقت کھانے پینے سے کچھ مانع نہیں ہے، لیکن احتیاط ترک کرنے میں ہی ہے، واللہ اعلم۔

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

26/09/1424هـ


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127573 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62669 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59205 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55709 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55178 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52032 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50021 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45029 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف