×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / صاحبِ زکوٰۃ کا اپنے ملک سے باہر زکوٰۃ نکالنا

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

کیا صاحب زکوٰۃ کا اپنے ملک سے باہر زکوٰۃ نکالنا جائز ہے؟ إخراج زكاة المال خارج بلد المزكي

المشاهدات:1092

کیا صاحبِ زکوٰۃ کا اپنے ملک سے باہر زکوٰۃ نکالنا جائز ہے؟

إخراج زكاة المال خارج بلد المزكي

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

اگرکسی مصلحت یا ضرورت کے پیشِ نظر ایسا کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، ورنہ تو اس میں اصل بات یہی ہے کہ زکوٰۃ کا مال جہاں انسان خود ہو تو وہاں کے فقراء کو دینا چاہئے ، اس لئے کہ اموال کی زکوٰۃ مال کے تابع ہوتی ہے اور بدن کی زکوٰۃ بدن کے تابع ہوتی ہے ، لہٰذا صدقۂ فطر آپ وہاں ادا کریں جہاں آپ خود ہوں ، یعنی جہاں بھی صدقۂ فطر کا وقت آپ پہ آجائے تو آپ وہاں ادا کرلیں ، اور اس کا منتقل کرنے کی دو حالتیں ہیں : (۱) بدن کی زکوٰۃ کی حالت میں (۲) مال کی زکوٰۃ کی حالت میں (مصلحت اور ضرورت کے تحت)۔

اور جہاں تک مال کی بات ہے تو اس کی زکوٰۃ مال کے تابع ہے ، اس لئے کہ جب لوگ آپ کو مالدار اور صاحبِ استطاعت دیکھیں گے اور آپ کی طرف سے کسی قسم کی زکوٰۃ نہیں دیکھیں گے تو آپ لوگوں کے درمیان موضعِ تہمت بن جائیں گے ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اس زکوٰۃ کے مستحق بھی ہیں کیونکہ وہ اس ملک کے باسی ہیں ، اسی لئے اکثر فقہائے کرام کا مذہب یہ ہے کہ اپنے ملک سے کسی اور ملک زکوٰۃ کے مال کو منتقل کرنا جائز نہیں ہے ، یہی اہل علم کی ایک بڑی جماعت کا مذہب ہے۔

اور اہلِ علم کی دوسری جماعت کا مذہب یہ ہے کہ زکوٰۃ کے مال کو کسی دوسرے ملک منتقل کرنا اگر کسی مصلحت یا ضرورت کے تحت ہو توجائز ہے اور ان کا استدلا ل صحیحین میں وارد شدہ حضرت ابن عباسؓ کی حدیث سے ہے کہ اللہ کے رسولنے حضرت معاذ ؓ کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’وہاں کے لوگوں کو یہ بات بھی بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لی جاتی ہے اور ان کے غریب لوگوں پر تقسیم کی جاتی ہے‘‘۔

اور حدیث سے وجہِ استدلال یہ ہے کہ زکوٰۃ کا مال مسلمانوں ہی میں سے ان کے مالداروں سے لیا جاتا ہے اور مسلمانوں ہی میں سے ان کے فقراء پر خرچ کیا جاتا ہے ، لہٰذا جنہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے ان کا یہی کہنا ہے۔

اور جو کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کا مال کسی اور ملک منتقل کرنا جائز نہیں ہے تو وہ بھی اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں (أغنیاءھم) یعنی: اس ملک کے مالداروں کے فقراء پر، اس لئے کہ یہاں ضمیر مخاطبین کی طرف لوٹتی ہے (أعلمھم أن اللہ افترض علیھم)۔

بہرکیف! یہ تو فقہائے کرام کے اپنے اقوال ہیں جہاں تک مجھے لگتا ہے تو میرے نزدیک اس مسئلہ میں کافی وسعت ہے اور خاص کر جب وہاں کوئی مصلحت یا ضرورت ہو


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127314 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62455 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58507 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55640 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55144 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51730 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49863 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44146 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف