میں نے اپنی اہلیہ سے اپنی پڑھائی کے لئے کچھ رقم ادھارلی ہے اس شرط پہ کہ اسے یہ رقم پانچ سال بعد لوٹاؤں گا تو کیا اب اس ادھار لی گئی رقم میں مجھ پر زکوٰۃ واجب ہے ؟
زكاة القروض
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.
وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.
ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر
على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004
من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا
بارك الله فيكم
إدارة موقع أ.د خالد المصلح
میں نے اپنی اہلیہ سے اپنی پڑھائی کے لئے کچھ رقم ادھارلی ہے اس شرط پہ کہ اسے یہ رقم پانچ سال بعد لوٹاؤں گا تو کیا اب اس ادھار لی گئی رقم میں مجھ پر زکوٰۃ واجب ہے ؟
زكاة القروض
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:
اگر یہ ادھار کسی ایسے تنگدست کو دیا گیا ہو جیسا کہ صاحب ِ سوال کے حال سے لگ رہا ہے تو اس حالت میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، اس لئے کہ اس کے پا س ادھار چُکانے کے لئے مال نہیں ہے ، لہٰذا ایسے قرضدار پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔
رہی بات قرض دینے والی کی تو جو مال اس کے قبضہ میں ہے تو اس کو اس مالِ نصاب میں سے کم کرے جو اس کے پاس ہے اور اس کو زکوٰۃ کے مال میں سے شمار نہ کرے ، لیکن اصل مسئلہ یہاں قرضدار کا ہے کہ کیا اس پر اس مال کی زکوٰۃ آئے گی یا نہیں؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ قرضہ کسی تنگدست آدمی پر ہو یا اصل میں تو تنگدست نہ ہولیکن ظاہری طور پر تنگدست ہو مثلا مال تو اس کے پاس ہے لیکن ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے اور قرضہ ادا نہیں کررہا تو راجح قول کے مطابق اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
اور اہل علم کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ اس پر ایک مرتبہ زکوٰۃ واجب ہے ، یہ امام مالک اور فقہائے کرام کی ایک بڑی جماعت کا قول ہے ، اور بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ جب اسے قبضہ ہوجائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے ۔
لیکن صاف اور بے غبارقول یہی ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، اس لئے کہ اس مال میں وجوبِ زکوٰہ کی شرائط مفقود ہیں ، اور وجوبِ زکوٰۃ کی شرائط میں سے ایک شرط کامل طور پر ملکیت بھی ہے ، یہاں ملکیت ذمہ میں تو شامل ہے لیکن ساقط ہونے کے احتمال سے وہ غیر مستحکم ہے ، اس لئے راجح قول کے مطابق اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔
واللہ أعلم