حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اگر اس طرح کے مواد اثر کے اعتبار سے میک اپ اور بیوٹی مواد کے مشابہ ہوں تو پھر ان کا استعمال جائز ہے، البتہ اگر ان کے استعمال سے باقاعدہ تغییر واقع ہوتی ہو جیسا کہ اوپر والی کھال کو زائل کرنا یا چہرے کو ابٹن وغیرہ سے رگڑنا تو یہ اکثر اہل علم کے نزدیک نا جائز ہے اس لئے کہ یہ ایک طرح کی اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ہے ، مسند [۲۶۱۷۱] میں حضرت عائشہؓ سے ایک حدیث میں مروی ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے چہرے کو رگڑنے والی عورت اور جس کے لئے رگڑا جا رہا ہے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ، اس حدیث کی سند میں بعض راویوں کی جہالت کی وجہ سے کلام ہوا ہے ۔
اور اہل علم کی دوسری جماعت کے نزدیک چہرے کی رگڑائی مباح و جائز ہے اس لئے کہ اس کے نہی کے بارے میں جو حدیث وارد ہوئی ہے وہ ضعیف ہے، باقی تخلیقِ خدا کی تبدیلی کی جو علت ہے تو وہ عام نہیں ہے اس لئے کہ اس کے کثرت کا تقاضا وہ جس کی طرف طبری گئے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جس شکل وصورت کے ساتھ پیدا کیا ہے تو اس میں عورت کے لئے کمی زیادتی جائز نہیں ہے ، حسن وجمال کے لئے ، نہ خاوند کے لئے اور نہ کسی اور کے لئے ، یہاں تک کہ اگر اس کو کوئی عیب ہو تب بھی اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے جیسا کہ اگر کسی کا زائد لمبا دانت ہو اور وہ اسے اکھاڑنا چاہے ، یا لمبائی کی وجہ سے اسے تراشنا چاہے یا کسی عورت کی داڑھی اور مونچھیں ہوں اور وہ ان کو کاٹنا چاہے یا اکھاڑنا چاہے تو اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے جبکہ یہ جمہورکے مذہب کے خلاف ہے کہ جمہور علماء نے ان صورتوں کو مستثنی قرار دیا ہے ، جیساکہ بعض روایتوں میں زیب وزینت اختیار کرنے کی اجازت وارد ہوئی ہے ، حالانکہ اس میں تخلیقِ خدا میں ایک قسم کی تبدیلی رونما ہوتی ہے جیساکہ مہندی اورخضاب لگانا لہٰذا یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تخلیق ِ خدا والا قاعدہ عام نہیں ہے ، جیسا کہ چیزوں کے استعمال میں جب تک کوئی ممانعت کی دلیل وارد نہ ہو تب تک وہ حلال ہوتی ہیں ۔
لہٰذا جہاں تک مجھے دکھائی دیتا ہے تو چہرے کی خوبصورتی اور صفائی کے لئے ان جیسے مواد کا استعمال جائز ہے ، اوراس کے اثر کی مدتِ طوالت وغیرہ ظاہر نہیں ہے ۔
باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
آپ کا بھائی/
أ.د.خالد المصلح
22/ 9 /1428هـ