×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / آگ میں زندہ سمندری جانوروں کو پھینکنے کا حکم

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

استکوزا {جو ہمارے ہاں أبوجلمبو کے نام سے مشہور ہے} کو زندہ آگ میں پھینکنے کا کیا حکم ہے؟ یہ ایک سمندری جانور ہے ، یہ بات پیش نظر رہے کہ سمندر سے نکلنے کے بعد یہ کافی دیر تک زندہ رہتا ہے بسا اوقات تو یہ دو دن تک بھی زندہ رہتا ہے؟ حكم إلقاء الحيوانات البحرية في النار وهي حية

المشاهدات:2109

استکوزا {جو ہمارے ہاں أبوجلمبو کے نام سے مشہور ہے} کو زندہ آگ میں پھینکنے کا کیا حکم ہے؟ یہ ایک سمندری جانور ہے ، یہ بات پیشِ نظر رہے کہ سمندر سے نکلنے کے بعد یہ کافی دیر تک زندہ رہتا ہے بسا اوقات تو یہ دو دن تک بھی زندہ رہتا ہے؟

حكم إلقاء الحيوانات البحرية في النار وهي حيّة

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ ان جیسے جانوروں کو آگ میں پھینکے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اس لئے کہ یہ فوراََ نہیں مرتے بلکہ کافی دیر تک زندہ رہتے ہیں ، اور آدابِ شرعیہ [۳/۲۵۴] میں بعض اہل علم کا ٹڈّوں کو آگ میں پھینکنے پر اجماع ہے ، اس لئے کہ ٹڈا فورا نہیں مرتا بلکہ کافی دیر تک زندہ رہتا ہے ، اور آپ کے مذکورہ مسئلہ میں یہ علت موجود ہے ، اور تاج والاکلیل [۳/۲۲۸] میں امام مالک ؒ نے اور کشاف القناع [۶/۲۰۴] اور المغنی [۹/۳۱۵] میں امام احمدؒ نے اس کے جواز پر صراحت فرمائی ہے ۔

باقی صحیح بخاری [۶۹۲۲] میں ایوب وعکرمہ کے طریق سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ کے پاس کچھ زندیق لائے گئے تو آپؓ نے ان کو زندہ جلا دیا ، یہ بات جب ابن عباسؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا اگر علی کی جگہ میں ہوتا تو میں ان کو کبھی بھی نہ جلاتا، اس لئے کہ اللہ کے رسول نے اس سے منع فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ’’اللہ کے عذاب کے ساتھ کسی کو عذاب نہ دو‘‘ بلکہ میں جلانے کے بجائے ان کو قتل کرتا۔

اسی طرح بخاری [۳۰۱۶] میں بکیر اور سلمان بن یسار کے طریق سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول نے ہمیں ایک غزوہ میں بھیجا اور فرمایا کہ اگر تمہیں فلاں فلاں ملے تو ان دونوں کو جلا دینا، پھر جب ہم نے نکلنے کا ارادہ کیا تو اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا: میں نے پہلے یہ کہا تھا کہ فلاں فلاں کو جلا دینا لیکن اصل بات یہ ہے کہ آگ سے صرف اللہ ہی عذاب دیتا ہے لہٰذا اب ایسا کرو کہ جب وہ تمہیں ملے تو ان کو جلانے کے بجائے قتل کردینا۔ لہٰذا آگ کے ذریعہ عذاب دینے سے منع کیا گیا ہے ۔

باقی رہی آگ کے ذریعہ قتل کرنا تو یہ عذاب دینے کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ قتل کرنا مقصود حاصل کرنے کے لئے یا ضرر دفع کرنے کے لئے تھا بایں صورت کہ جب ضرر اسی سے دفع ہوتا ہو، اس صورت میں یہ منہی عنہ میں داخل نہیں ہے ۔ واللہ أعلم

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

16/06/1425هـ


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127723 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62717 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59365 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55720 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55188 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52095 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50047 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45059 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف