×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / شراب بیچنے والے کو اجرت پر لینا

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

کیا ایسے ہوٹل اور ہال رینٹ پر لینا جائز ہیں جن میں شراب اور دوسری حرام کردہ چیزیں بیچی جاتی ہوں ؟ اور کیا ایسی جگہوں میں نماز پڑھنا اور ذکر کرنا جائز ہے جبکہ اس میں شراب موجود ہو؟ حكم التأجير على بائع الخمر

المشاهدات:1301

کیا ایسے ہوٹل اور ہال رینٹ پر لینا جائز ہیں جن میں شراب اور دوسری حرام کردہ چیزیں بیچی جاتی ہوں ؟ اور کیا ایسی جگہوں میں نماز پڑھنا اور ذکر کرنا جائز ہے جبکہ اس میں شراب موجود ہو؟

حكم التأجير على بائع الخمر

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

آنحضرتسے ایسی کئی احادیث وارد ہوئی ہیں جو ایک مسلمان کو ایسے دسترخوانوں پر بیٹھنے سے منع کرتی ہیں جن پر شراب نوشی ہو رہی ہو یا ان پر شراب کا دور چل رہا ہو، اور ان سب احادیث میں أصح حدیث وہ ہے جسے امام نسائی نے الکبری {6741} میں ابو زبیر کے طریق سے حضرت جابرؓ سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: ’’جو اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چل رہا ہو‘‘۔ اس حدیث کی اسناد فتح الباری {9/250} میں حافظ بن حجر کے بقول جید ہے ، اسی حدیث کو امام ترمذی نے لیث بن ابی سلیم اور طاؤس کے طریق سے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے، لیکن وہ حدیث لیث کی وجہ سے ضعیف ہے۔

یہ حکم صرف دسترخوان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس جگہ کے ساتھ بھی خاص ہے جس میں شراب پائی جائے ، اس لئے میرے نزدیک ایسے ہال کرایہ پر لینا جائز نہیں ہیں جن میں شراب پڑی ہو، کیونکہ یہ گناہ کی جگہیں ان کو چھوڑنا اور ان سے باہر نکلنا واجب ہے ، امام نسائی {5256} نے حضرت علیؓ سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کھانا تیار کیا تو میں نے اللہ کے رسولکو بلایا، جب اللہ کے رسولاندر تشریف لائے تو ایک پردے پر نظر پڑی جس پر کچھ تصویریں بنی ہوئی تھیں تو آنحضرتوہاں سے باہر نکل گئے اور فرمایا: ’’فرشتے ایسی جگہوں میں نہیں آتے جہاں کتا یا تصویر ہو‘‘۔

اور اسی طرح سلفِ صالحین میں سے صحابہ اور تابعین بھی ایسے ولیموں میں نہیں جاتے تھے جبکہ یہ گناہ شراب کے گناہ سے کم درجہ ہے، اور حضرت ابن مسعودؓ سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ کسی کے گھر میں تصویریں دیکھیں تو وہاں سے واپس لوٹ گئے ، اسی طرح حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت ابو ایوبؓ کی دعوت کی ، ابوایوب ؓ جب ان کے گھر تشریف لائے اور گھر کی دیوار پر ایک پردہ دیکھا جس پر کچھ تصویریں تھیں ، حضرت ابن عمر ؓ نے ان کی ناگواری کو بھانپتے ہوئے کہا کہ ہماری بیویاں ہم پر غالب آگئی ہیں، یہ سن کر حضرت ابوایوب ؓ نے فرمایا: مجھے ہر کسی کے بارے میں ڈر تھا لیکن تمہارے بارے میں نہیں، بخدا میں تمہارا کھانا نہیں کھاؤں گا یہ کہہ کر وہاں سے چل دئیے ۔

ان دو حدیثوں کو امام بخاری نے اپنے صحیح میں تعلیقا روایت کی ہے ، باقی رہا یہاں نماز پڑھنے کا سوال تو نماز یہاں درست ہے آپ کے عمومی ارشادات کے پیشِ نظر جن میں آپ فرماتے ہیں: ’’ساری کی ساری زمین میرے لئے سجدہ گاہ اور پاک بنادی گئی ہے‘‘۔ (رواہ البخاری: 332 و مسلم: 810)۔

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی جگہوں کو چھوڑنا واجب ہے اس لئے کہ اس میں گناہ کے کام ہوتے ہیں اس لئے اگر کسی دوسری جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں تو ایسی جگہ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ واللہ اعلم


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127579 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62675 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59226 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55711 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55179 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52043 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50026 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45032 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف