حامداََ ومصلیاََ۔۔۔
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته.
اما بعد۔۔۔
قرآن پڑھنے والے پر واجب ہے کہ ٹھر ٹھر کر پڑھے یعنی ترتیل کرے ، اللہ رب العزت کی پیروی کرتے ہوئے جیسا کہ قرآن میں ہے: ــ ـ اور قرآن ٹھر ٹھر کر پڑھئے ـ۔(المزمل :۴) اور حدیث میں بھی آیا ہے کہ آپ ﷺبڑے ترسل کے ساتھ ٹھر ٹھر کر پڑھتے تھے، مسلم کی حدیث (۷۷۲) میں ہے: ـــحضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں :ایک رات میں نے نبی ﷺکے ساتھ نماز پڑھی تو انہوں نے ابتداء سورۃ البقرہ سے کی تو میں نے دل میں کہا کہ سو آیتوں کے بعد رکوع کر لیں گے مگر آپ پڑ ھتے رہیں پھر میں نے دل میں کہا کہ ایک رکعت میں پوری کر سورت پڑھیں گے مگر آپ ﷺپڑھتے رہے پھر میں نے کہا ابھی رکوع کرتے ہیں تو آپ ﷺنے آل عمران شروع کی اس کو پڑھا پھر نساء شروع کی اس کو پڑھا اور آپ ﷺٹھر ٹھر کر پڑھ رہے تھے اگر کسی آیت میں تسبیح ہوتی آپ ﷺتسبیح کہتے اور اگر سوال والی آیت سے گزرتے تو سوال کرتے اور اگر تعوذ والی آیت ہوتی تو آﷺپناہ مانگتے۔ اور حذیفہ ؓ فرماتے ہیں آپ ﷺسورت کی تلاوت فرماتے تو ٹھر ٹھر کر پڑھتے یہاں تک کہ وہ سورت اپنے سے لمبی سورت سے بھی زیادہ طویل ہوجاتی ۔ (مسلم:۷۷۳)
بلکہ رسول اللہ ﷺرات کی نماز (تہجد) میں ایک ہی آیت کو دہراتے رہتے یہاں تک کہ صبح ہوجاتی۔ مسند احمد (۲۰۹۸۴) ، نسائی (۱۰۱۰) اور ابن ماجہ (۱۳۵۰) میں حضرت ابو ذر ؓ کی روایت ہے: نبی ﷺنے ایک ہی آیت کو دہراتے ہوئے قیام فرمایا یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور آیت یہ ہے : اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف کر دے تو آپ بڑے غلبے والے اور حکمت والے ہیں۔ (المائدہ: ۱۱۸)
اور چونکہ مقصود قرآن پڑھنے سے تدبر اور نصیحت حاصل کرنا ہے نہ کہ صرف الفاظ کے معانی پر توجہ دیئے بغیر ادا کرنا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: یہ ایک ایسی کتاب ہے جو ہم نے آپ ﷺپر نازل کی برکت والی ہے تاکہ یہ اس کی آیات میں غور و فکر کرے اور عقل رکھنے والے نصیحت حاصل کریں ۔ (ص:۲۹)
اور قرآن میں تدبر اور غور و فکر قرات میں ٹھراؤ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔مسلم (۸۲۲) کی حدیث میں ہے، ابو وائل روایت کرتے ہیں : ایک آدمی جسکا نام نھیک بن سنان تھا عبداللہ بن مسعود ؓکے پاس آیا اور کہا میں مفصل سورت (طوال مفصل ) ایک رکعت میں پڑھ لیتا ہوں، تو عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا یہ شعر کے گنگنانے کی طرح ہی ہے ، بعض لوگ ایسے ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں جاتا لیکن اگر دل میں واقع ہو اور راسخ ہو جائے تو بھی یہ نفع دے گا۔
اور علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ترتیل قرات کے کم ہونے کے ساتھ افضل ہے یا تیزی سے پڑھنا جبکہ قرات زیادہ ہو تو افضل ہے ؟ تو جمہور صحابہ ، تابعین اور دیگر علماء کایہ مذہب ہے کہ قرات اگرچہ کم ہو مگر ترتیل اور تدبر کے ساتھ ہو تو یہ افضل ہے اس قرات سے جو کثیر ہو مگر تیزی کے ساتھ ہو کیونکہ پیچھے گزر چکا ہے کہ مقصود قرآن کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ واللہ اعلم۔
آپ کا بھائی
أ.د.خالد المصلح
29 /1 / 1429هـ