حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
سب سے پہلے تو میں آپ کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کروں گا اور اس بات سے خبر دار کروں گا کہ ایسے موقع پر طلاق کا قطعاََ استعمال نہ کریں؛ جو ہو گیا اس سے خلاصی کا طریقہ یہ ہے کہ آپ قسم کا کفارہ ادا کریں؛ کیونکہ ظاہر الکلام یہی ہے کہ آپ نے بیوی کو اپنے والدین کے گھر جانے سے منع کرتے ہوئے لفظ طلاق کا استعمال کیا، اور اہل علم کے اقوال میں سے اصح قول کے مطابق ایسی صورت میں حکم قسم والا ہوتا ہے۔
اور آدمی کا یہ کہنا کہ وہ مجھ پر حرام ہے تو یہ فی نفسہ محرمات میں سے ہے، اللہ تعالی نے اپنے رسول کو اس بات پر عتاب بھی کیا ہے: ((اے نبی! اللہ نے جو تمہارے لئے حلال کیا ہے تم اسے حرام کیوں کرتے ہو)) [التحریم:۱] اس سے خلاصی کا طریقہ بھی اللہ تعالی نے سورۃ التحریم میں ہی قسم کا کفارہ ہی بتایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اللہ نے تمہارے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ فرض کیا ہے)) [التحریم :۲] لہذا جس نے بھی ایسا کچھ کہا ہو اس پر واجب ہے کہ قسم کا کفارہ دے اور اسی کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے: ((اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہارا مؤاخذہ نہیں کرتا، لیکن جو تم نے قسمیں پکی کر لیں ان پر پکڑ کرے گا، تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے اس درمیانی سطح کا جسطرح کا تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کے کپڑے۔۔۔)) [المائدہ:۸۹]