کیا حج وعمرہ کے لئے دوست بینک یا عزیزواقارِب سے بطورِقرض لینا درست ہے؟؟
الاقتراض من أجل الحج
کیا حج وعمرہ کے لئے دوست بینک یا عزیزواقارِب سے بطورِقرض لینا درست ہے؟؟
الاقتراض من أجل الحج
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعدالحمدوالصلوۃ:
اہلِ علم کا اجماع ہے کہ حج صرف اہلِ استطاعت پر فرض ہے اور اسکی دلیل اللہ جل جلالہ کا قول ہے
وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیل
ترجمہ:اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے․
اور استطاعتِ معتبرہ یہ ہے کہ اتنے مال کا مالک ہو کہ وہ مال آنے جانے او ر اسکی واپسی تک اس کے اہل و عیال کے خرچہ کے لئے کافی ہو․
حج کے لئے قرض لیناجمہور اہلِ علم کے نزدیک واجب نہیں․․امام نووی مجموع شرح مھذب میں فرماتے ہیں(۶۱؍۷)اس پر ایسا مال لینا جس سے وہ حج کر سکے واجب نہیں (اس مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں)
قرض لینے کے عدمِ وجوب پر اتفاق کے بعد اختلاف اس بات میں ہے کہ حج کے لئے قرضہ لینے کا کیا حکم ہے؟؟
شوافع کے نزدیک اگر وہ بعد میں قرض ادک کرسکتا ہو اور قرض دینے والا بھی راضی ہو تو قرضہ لینے کی گنجائش ہے اور یہی قول سفیان ثوری کا بھی ہے اور فرمایا جیسا کہ عبداللہ نے تمہید میں نقل کیا ہے(۱۳۵؍۹)’’اگر آدمی کے پاس کوئی چیز بھی نہ ہو اور وہ حج نہ کرے تو مجھے یہ پسند نہیں کہ وہ قرض لے اور لوگوں سے مانگ کر حج کرے‘‘ ․
حنفیہ فرماتے ہیں کہ وہ قرض لے سکتا ہے اگر اس پر حج واجب ہو اور قرض لینا فرض ہے جب تک استطاعت علی الحج باقی ہو اور فرماتے ہیں وہ قرض لے گا اگرچہ وہ اصالۃقرض کی ادائیگی پر قادر نہ ہو․․یہ تمام بات ابن عابدین نے اپنے حاشیہ میں ذکر کی ہے․․
جبکہ مالکیہ کے نزدیک دو احتمال ہیں ایک حرمت اوردوسرا کراہت کا جب وہ اس قرض کی ادائیگی نہ کرسکتا ہو جیسا کہ خطاب نے مواہب الجلیل(۵۰۷؍۲) میں ذکر کیا ہے․
اور مجھے راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو چیزاس شخص پر اللہ نے فرض نہیں کی اس کی ذمہ داری لینا درست نہیں اور ایک حدیث جو امام شافعی اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے(عبداللہ بن ابی اوفی) نے نبی کریم ﷺسے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا ’’جس نے حج نہ کیا ہو کیا وہ حج کے لئے قرض لے سکتا ہے؟آپ ﷺنے فرمایا: نہیں‘‘
بعض راویوں کے ضعف کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے اور اس حدیث کو عبداللہ بن ابی اوفی سے موقوفا روایت کیا گیا ہے․․․
واللہ اعلم