وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حامدا و مصلیا
امابعد۔
یہ بات درست نہیں ہے ، لگتا ہے امام صاحب کو آپ ﷺکے اس قول سے وہم ہوگیا ہے جس کوامام مسلمؒ نے (۸۶۹) میں حضرت عمارؓ سے نقل کیا ہے کہ :’’آدمی کی نماز کا لمبا ہونا اور اس کے خطبے کا چھوٹا ہوناا س کے فقیہ ہونے کی علامت ہے ، لہٰذا نماز کو لمبا کرکے پڑھا کرو اور خطبہ چھوٹا کیا کرو‘‘۔اور اس حدیث میں اس نسبت پر کوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ اس حدیث میں تو صرف خطبہ کے مختصرکرنے اور نماز کے لمبا کرنے کی ترغیب ہے ، اور قصرِ مشروع وہ قصر ہے جو مقصود (یعنی خطبہ اور وعظ و نصیحت ) میں خلل پذیر نہیں ہوتا۔
اور رہی بات خطبہ سے پہلے درس دینے کی تو مجھے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ کہیں تیسرا خطبہ نہ ہو، اس لئے کہ یہ نہ تو سرکارِ دوعالمﷺسے ثابت ہے اور نہ ہی ا ن کے جاں سپار صحابہ ؓ سے ۔کیونکہ اس میں نماز سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے کا بھی ایک اندیشہ ہے اور اس سے روکا گیاہے اور یہ نہی اس حدیث میں وارد ہوئی ہے جس کو امام ابوداؤد ؒ نے (۱۰۷۹) میں اور امام نسائیؒ نے (۷۰۴)میں حضرت عمروبن شعیب اور انہوں نے اپنے والدِ ماجد سے نقل کی ہے کہ : ’’آپﷺنے جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنانے سے منع فرمایا ہے ‘‘۔اور اہلِ علم نے اس نہی کی علت یہ ذکر کی ہے کہ اس طرح علم و مذاکرہ کے لئے جمع ہونے سے نماز اور اس کی تیاری سے غفلت پیدا ہوتی ہے ، باقی میں آ پ کو امامِ مسجد کی وعظ و نصیحت پر حرص کی وصیت کرتا ہوں ، کہ وجہِ صواب کا بیان اسی میں ہے ۔ واللہ أعلم بالصواب۔
آپ کا بھائی
أ.د.خالد المصلح
20/ 9 /1427 هـ