حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
جس کے مال پر غالب گمان حرام کا ہو اس کے ساتھ لین دین کرنے میں اہل علم کے بیشتر اقوال ہیں جن میں مشہور قول جواز کا ہے ، اور ان سے گفٹ قبول کرنے کی تائید ہمیں اس بات سے بھی ملتی ہے کہ آپ ﷺیہودیوں کے ہدئیے قبول کرتے تھے، صحیح بخاری {۲۹۳۳} میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ جب غزوۂ خیبر فتح ہوا تو آنحضرت ﷺکو ایک بکری ہدیہ کی گئی جس میں زہر ملایا گیا تھا اور ہدیہ کرنے والی یہودن عورت تھی لیکن آنحضرت ﷺنے اس سے وہ بکری کا ہدیہ قبول فرمایا حالانکہ یہود سُود اور ناحق مال کھاتے تھے جو کہ ان کے مال کا غالب حصہ تھا۔
اس کی تائید عبدالرزاق کی کتاب مصنف میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی جید سند کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابن مسعودؓ سے پوچھا کہ میرا ایک پڑوسی ہے جو سود خور ہے جو اکثر مجھے دعوت دیتا رہتا ہے (لہٰذا اس صورت میں کیا کروں) فرمایا: آپ کے لئے ایک خوشگوار مال ہے اس کا گناہ اس پر ہوگا۔
اسی طرح سلمان سے بھی منقول ہے ، حضرت حسن سے صرّافوں کے کھانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہودیوں اور نصاری کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے کہ وہ سود خور ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کے لئے ان کا کھانا حلال قرار دیا ہے ، یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب حرام لین دین کی طرف سے آپ کو اچانک کوئی گفٹ آجائے، اور اگر کوئی گفٹ آپ کے پاس کسی ایسے طریقہ سے آجائے کہ جو مباح طریقہ سے اس کا مالک بنا ہو اور پھر وہ آپ کو گفٹ کردے تو جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہے تو اس صورت میں جائز ہے، اور اس صورت میں آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، لیکن اگر اس طرح کے گفٹ قبول کرنا اگر حرام کام کو رواج دے یا اس کا داعی ہو یا اس کا حکم لوگوں پر مشتبہ رہے تو پھر میری رائے یہ ہے کہ آپ اس کو قبول نہ کریں ۔
باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے