حمد وثناء کے بعد۔۔۔
اس ضرورت کو ان ضرورتوں میں سے شمار نہیں کیا جاتا جو سود کو مباح کرے اس لئے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اگر وہ تنگدست ہو تو فراخی تک اسے مہلت دو﴾ [البقرۃ: 280] اسی رُو سے آپ کے لئے حرام طریقہ سے اس مال کی واپسی واجب نہیں ہے، بلکہ قرض خواہ کو چاہئے کہ وہ اچھے وقت تک کے لئے صبر اختیار کرے ، اب یہاں یہ بات علم میں رکھیں کہ اہل علم کا کہنا ہے کہ ضرورت سود کو مباح نہیں کرتی۔
اور درست یہی ہے کہ میرے خیال میں یہ باقی محرمات میں سے نہیں ہے لیکن یہ ضرور علم میں رہنا چاہئے کہ ضرورت صرف دو شرطوں کے ساتھ سود کو مباح کرتی ہے:
پہلی شرط: ضرر دفع کرنے لئے حرام کا ارتکاب متعین کیا جائے ۔
دوسری شرط: ضرورت کے ذریعہ حرام کردہ کام ختم ہونے کا یقین ہو ۔
باقی رہا استخارہ کا سوال تو استخارہ اس کام میں نہیں کیا جاتا جو واجب ہو اور نہ ہی حرام اور مکروہ کام چھوڑنے کے لئے کیا جاتا ہے بلکہ استخارہ تو دو خیروں کو طلب کرنے کا نام ہے ، حرام کام سے اجتناب اور گریز واجب ہے کہ اس میں کوئی خیر نہیں ، یا خیر ہو تو لیکن اس کا دارومدار برائی پر ہو ۔
لیکن اگر استخارہ سے مراد حرام کام میں اسکی اباحت کے اسباب پایا جانا ہو یا دونوں حرام کاموں میں موازنہ مراد ہو تو پھر ان جیسے کاموں میں استخارہ مشروع ہے۔ واللہ أعلم