×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / اولاد کی تربیت میں کوتاہی

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

خطبۂ اول تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ امابعد! ((اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے،  اور خبردار! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں  آئے کہ تم مسلمان ہو۔)) اللہ ﷻ سے ڈرنے میں  امانت کو ادا کرنا اور امانت کو قائم کرنا بھی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: (((مسلمانو!) یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ۔))         سب سے بڑی اور سب سے زیادہ عظیم امانت تمہاری اولاد ہے جو تمہارے ہی گوشت کا ٹکڑا ہے۔ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ یہ بچاؤ ان کی نگرانی، ان کی تربیت اور ان کی دینی، اخلاقی اور دنیا کی حفاظت کے ساتھ ہوگی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں اس ذمہ داری کا بوجھ عطا کیا ہے۔ صحیحین کی روایت حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہر بچے کی فطرت پر پیدائش ہوتی ہے، لیکن اس کے والدین اسے یہودی، یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘         اے اللہ کے بندے تمہاری اولاد تمہاری محنت کا نتیجہ ہے۔ اسی وجہ سے اگر تم کوئی بھلائی پاؤ تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اگر اس کے علاوہ کوئی چیز پاؤ تو اپنے جی کو ہی ملامت کرو۔ اور تم نے خود اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو نقصان پہنچایا۔         جس چیز کی وجہ سے دل پریشان ہوتا ہے اور دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ بہت زیادہ لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت سے غافل ہوگئے ہیں، ان کی تربیت کو ہلکا جاننے لگےہیں اور انہوں نے اپنی اولاد کو ضائع کردیا ہے۔ وہ ان کی نیکی اور تقویٰ پر تربیت نہیں کرتے، بلکہ بہت زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ کتنے ہی والدین۔ اللہ تعالیٰ ان کے حالات کی اصلاح فرمائے۔ اپنی اولاد کی بدبختی اور ان کی خرابی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اولاد اور دنیا اور آخرت میں اپنے جگر گوشوں سے غافل ہوکر، ان کی تربیت چھوڑ کے اور ان کی خواہشات پر ان کی مدد کرکے انہیں بدبخت بنادیا ہے۔ اس کے باوجود وہ یہ سمجھتے  ہیں کہ وہ انہیں عزت دے رہیں حالانکہ انہوں نے ان کی توہین کی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان پر رحم کررہےہیں حالانکہ انہوں نے ان پر ظلم کیا ہے۔ ان کا اپنی اولاد سے فائدہ حاصل کرنا ختم ہوگیا اور انہوں نے اپنی اولاد کا دنیا اور آخرت میں حصہ فوت کردیا۔ اگر تم اولاد میں خرابی دیکھو تو عام طور سے وہ والدین کی وجہ سے ہوگی۔‘‘         آپ کا بھلا ہو یہ کتنا عجیب اورکتنا سچا کلام ہے! مسلمانو!         سچے مسلمان کو اپنے اولاد کے اپنے پروردگار اور اپنے بھائیوں کی طرف راستہ کی فکر اور پرواہ ہوتی ہے۔ اس کی ذمہ داری اور کوشش صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو معاشرے سے بچائے اور انہیں ان کی مرضی کے مطابق رہنے دے۔ یہی پہلے مؤمنین کا راستہ ہے۔         یہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خلیل حضرت إبراہیم علیہ السلام ہیں وہ فرماتے ہیں: ((یا رب! مجھےبھی نماز قائم کرنے والا بنادیجئے، اور میری اولاد میں سے بھی (ایسے لوگ پیدا فرمایئے جو نماز قائم کریں۔) اے ہمارے پروردگار! اور میری دعا قبول فرمالیجئے۔))         اور یہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔وہ اپنے بیٹے کو پکار رہےہیں اور اصرار کے ساتھ اسے بلارہے ہیں، چنانچہ فرمارہے ہیں: ((بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجاؤ، اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔))         اور یہ حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں جو اپنی اولاد سے اپنی آخری سانسوں میں عہد وپیمان لےرہے ہیں، جیسا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمیں اس کا واقعہ بیان کیاہے: ((کیا اس وقت تم موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سےکہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ ان سب نے کہا تھا کہ ہم اسی ایک خدا کی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے۔ اور ہم صرف اسی کے فرماں بردار ہیں۔))         یہ سچے، پیروی کرنے والے مؤمنین کا قافلہ ہے ۔ یہ رحمٰن کے بندوں کا قافلہ ہے جو یہ کہتے ہوئے دعا کررہے ہیں: ((ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیز گاروں کا سربراہ بنادے۔))         اے مؤمنو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سےڈرو اور ان نیک لوگوں کے ہدایت کے راستہ پر چلو ((یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی ہیں جو عقل والے ہیں۔)) اللہ کے بندو!         معزز والد حضرات سب سے بڑی مشکل اور سب سے عظیم مصیبت وہ ہے جس سے بہت ساری اسلامی معاشروں کو تکلیف پہنچی ہے وہ والدین کی اپنی اولاد کی نگرانی اور ان کی نیکی اور تقویٰ پر تربیت میں کوتاہی کرنا ہے۔ اس کوتاہی کی بہت ساری نشانیاں ہیں۔         اولاد کی تربیت میں کوتاہی کے مظاہر میں سے اولاد سےاعراض کرکے اس فانی دنیا کے کاموں میں مصروف ہونا ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے بھی برابر نہیں ہے۔ کتنے والد ایسےہیں جنہوں نے اپنے گھروں کوچھوڑ دیا ہے اور اس میں تھوڑی دیر کے لئے صرف کھانے یا پینے یا سونےکےلئے ہی بیٹھتے ہیں۔ اور باقی اوقات تو وہ خریدو فروخت اور مجلسوں اور گھومنے پھرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سارے ضروری کام اور حقوق ضائع ہورہےہیں۔ اگر یہ لوگ کسی معاملےیا تجارت کا سن لیں تو سچے دوستوں کو چھوڑ دیں اور ملنا جلنا کم کردیں۔ کیا انہیں یہ علم نہیں ہے کہ اپنے انتقال کے بعد جو سب سے بہترین چیز یہ چھوڑیں گے وہ نیک اولاد ہےجو ان کےلئے دعاکرے۔        اے مؤمنو!         اولاد کی تربیت میں جو کمی عام ہورہی ہے  اس کی صورتوں میں سےیہ بات بھی ہے کہ والدین اولاد کے سامنے گناہ کرنے کو ہلکا سمجھتےہیں اور ان کا غلطیوں اور نافرمانیوں کے بارے میں جری ہونا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ والدین بھی ان غلطیوں کی حمایت کرتےہیں اور وہ خود بھی انہیں کھلم کھلا کرتےہیں۔ بعض والدین ایسے ہوتےہیں جو کچھ گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ اپنی اولاد کے سامنے گناہ کرنے سے پرہیز نہیں کرتے۔ کتنے ہی ایسے والدین ہیں جو مثلا گانوں کے سننے یا نا محرم عورتوں کو دیکھنے یا ان کے علاوہ دیگر گناہوں  میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ گناہ اپنی اولاد کے سامنے کرتے ہیں پھر ان کی اولاد وہ گناہ کرنےلگ جاتی ہے۔ ہر بچہ فطرت پر  پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔         ہمارے جوان اسی چیز پر جوان ہوتے ہیں                 جس کی ان کا والد انہیں عادت ڈال دیتا ہے اے مؤمنو!         اولاد سے سب سے بڑی خیانت استعمال کے اچھی چیزوں کے بارے میں غفلت ہے جن کا اچھا استعمال نہ کرکے وہ ان کے ذریعہ بہت زیادہ شر اور فساد تک پہنچ جاتے ہیں   ، جیسے ٹیلی ویژن اور ان جیسی چیزیں۔ ان میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو دلوں کو بگاڑ دیتی ہیں، اخلاق کو  خراب کردیتی ہیں، آنکھوں کو اندھا کردیتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے راستہ سے روکا جاتا ہے۔         ان لوگوں کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔ اللہ کی قسم۔ ایسے لوگوں نے ہی اپنی اولاد کو بدبخت بنایا ہے اور ان کی بھلائی اور درستگی کو ضائع کردیا ہے۔ ایسے لوگوں کےلئے ہلاکت ہے، ایسے لوگوں کےلئے ہلاکت ہے، ایسے لوگوں کےلئے ہلاکت ہے۔ انہوں نے ہر کمرے میں شیطان  رکھ دیا ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے راستہ سے روکتا ہے اور ٹیڑھ تلاش کرتا ہے!!         اے مؤمنو اللہ کی قسم یہ خیانتوں میں سے سب سے بڑی خیانت ہے۔ وہ انسان جس نے اپنی اولاد  کو بگاڑنے کی کوشش کی کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے نجات پاجائے گا: ’’اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کسی بھی بندے کو اپنی مخلوق کا نگران بنائیں اور وہ اس حال میں  مرجائے کہ ان سے دھوکہ دہی کرنے والا ہو، یعنی اس نے ان کی خیر خواہی کے ذریعہ دیکھ بھال  نہیں کی تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکے گا۔‘‘         ایسے انسان کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور اس دن کو یاد رکھناچاہئے جب اسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ انہیں پکاریں گے اور کہیں گے: تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا؟ اور تم  نے میرے اس ارشاد کے ساتھ کیا کیا تھا: (( اے ایمان والو!  اپنے  آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔)) دوسرا خطبہ:         حمد وصلاۃ کے بعد! اے مؤمنو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو۔ اس بہت بڑی امانت، یعنی اولاد کی تربیت کی امانت کو ضائع کرنا، ان سے غفلت برتنا اور انہیں ان کی مرضی کے مطابق جینےدینا خیانت ہے، جیسے وہ جس وقت چاہیں نکل جائیں، جس سے چاہیں دوستی کریں، رات کو جاگیں اور دن کو سوئیں۔         یہ ساری باتیں امانت کو ضائع کرنے میں شامل ہیں۔ اس کمی کی وجہ سے اس آخری وقت میں اڈوں اور آرام کی جگہوں پر جمع ہونا ہے  جنہیں کئی نوجوان کرائے پر لیتے ہیں، ان میں کافی دیر تک بیٹھتےہیں۔ چھوٹے اور بڑے وہاں پر اپنے والدین اور اپنے نگرانوں کی نظرسے دور عام طور سے کئی طرح کے گناہوں اور نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے ہیں     ۔ ان جگہوں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے بارے میں کوئی بھی  عالم اس بات میں شک نہیں رکھتا کہ یہ اجتماع اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اس کے رسول  ﷺ کے حکم کےخلاف ہے۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کی مخالفت ہے کیونکہ آپ ﷺ عشاء کی نماز کے بعد بات چیت کو اس لئے ناپسند فرماتے تھے کیونکہ یہ وقت کے ضیاع ،  ضروری ذمہ داریوں کو فوت کرنے  اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے مخلوق کو فطری چیزیں عطا کی ہیں جیسے رات کی نیند اور دن کو جاگنا ان کی مخالفت کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالی فرماتے ہیں: ((اور رات کو پردے کا سبب ہم نے بنایا۔ اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے مقرر کیا۔)) اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں: ((اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی، تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو، اور دن کو ایسا بنایا جو تمہیں دیکھنے کی صلاحیت دے۔))         یہ تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ جاگنا کسی ٹھیک کام کے لیے ہو تو ایسے کاموں کی کیا حالت ہوگی جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان اجتماعات میں سے اکثر میں لڑکے اور عقلی طور پر بے وقوف لوگ بے حیاء لوگوں کے گانے یا بری باتیں سنتے ہیں یا گھٹیا مناظر اور چیزوں کو دیکھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں جنہیں فطرت برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ مناظر نافرمانی کو بھڑکاتے ہیں،  بیماریوں کو پھیلاتے ہیں، شہوت کومشتعل کرتے ہیں اور دل میں بہت وسوسے ڈالتے ہیں۔ لیکن یہ لڑکے ان واقعات کی آگ سے اثر قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ صرف بری عادت یا حرام تعلقات ہیں، لہٰذا یہ لوگ کبیرہ گناہوں اور ناپسندیدہ معصیتوں میں لتھڑ جاتے ہیں   ۔         اے جوانواس دن سے ڈرو جب تم سب اللہ کے پاس لوٹ کر جاؤ گے، جب   انسان بھائی سے بھی بھاگے گا، اور اپنے ماں باپ سے بھی، اور اپنے بیوی بچوں سے  بھی۔(کیونکہ) ان میں سے ہر ایک کو اس دن اپنی ایسی فکر پڑی ہوگی کہ اسے دوسروں کا ہوش نہیں ہوگا۔         اے جوانو!  ان اجتماعات سے بچو، کیونکہ یہ ایسے شر ہیں جن میں کوئی خیر نہیں ہے۔ اے والد اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولادوں کو اس طرح کے  اجتماعات سے بچاؤ اور ان سے ان کی حفاظت کرو، کیونکہ یہ فساد کے اہم اسباب میں سے ہیں۔         اے مؤمنو! اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ تمہیں نیکی اور تقویٰ کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو۔))         ان اڈوں اور آرام دہ جگہوں کے مالکوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے پروردگار اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈریں اور وہ ایسے لوگوں کو یہ جگہیں کرایہ پر نہ دیں جن کے بارے میں یہ گمان ہو کہ وہ ان برائیوں کے لئے ان میں بیٹھیں گے۔ کیونکہ اس حالت  میں ان اڈوں اور آرام کی جگہوں کو کرایہ پر دینا حرام ہے اور اس پر اجرت لینا بھی حرام ہے۔         لہٰذا اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور  اپنے  آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ خطبة: التقصير في تربية الأولاد

المشاهدات:1892
- Aa +

خطبۂ اول

تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔

امابعد!

((اے ایمان والو! دِل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے،  اور خبردار! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں  آئے کہ تم مسلمان ہو۔)) اللہ ﷻ سے ڈرنے میں  امانت کو ادا کرنا اور امانت کو قائم کرنا بھی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: (((مسلمانو!) یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ۔))

        سب سے بڑی اور سب سے زیادہ عظیم امانت تمہاری اولاد ہے جو تمہارے ہی گوشت کا ٹکڑا ہے۔ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ یہ بچاؤ ان کی نگرانی، ان کی تربیت اور ان کی دینی، اخلاقی اور دنیا کی حفاظت کے ساتھ ہوگی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں اس ذمہ داری کا بوجھ عطا کیا ہے۔ صحیحین کی روایت حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہر بچے کی فطرت پر پیدائش ہوتی ہے، لیکن اس کے والدین اسے یہودی، یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘

        اے اللہ کے بندے تمہاری اولاد تمہاری محنت کا نتیجہ ہے۔ اسی وجہ سے اگر تم کوئی بھلائی پاؤ تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اگر اس کے علاوہ کوئی چیز پاؤ تو اپنے جی کو ہی ملامت کرو۔ اور تم نے خود اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو نقصان پہنچایا۔

        جس چیز کی وجہ سے دل پریشان ہوتا ہے اور دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ بہت زیادہ لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت سے غافل ہوگئے ہیں، ان کی تربیت کو ہلکا جاننے لگےہیں اور انہوں نے اپنی اولاد کو ضائع کردیا ہے۔ وہ ان کی نیکی اور تقویٰ پر تربیت نہیں کرتے، بلکہ بہت زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ کتنے ہی والدین۔ اللہ تعالیٰ ان کے حالات کی اصلاح فرمائے۔ اپنی اولاد کی بدبختی اور ان کی خرابی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔علّامہ ابنِ قیّم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اولاد اور دنیا اور آخرت میں اپنے جگر گوشوں سے غافل ہوکر، ان کی تربیت چھوڑ کے اور ان کی خواہشات پر ان کی مدد کرکے انہیں بدبخت بنادیا ہے۔ اس کے باوجود وہ یہ سمجھتے  ہیں کہ وہ انہیں عزّت دے رہیں حالانکہ انہوں نے ان کی توہین کی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان پر رحم کررہےہیں حالانکہ انہوں نے ان پر ظلم کیا ہے۔ ان کا اپنی اولاد سے فائدہ حاصل کرنا ختم ہوگیا اور انہوں نے اپنی اولاد کا دنیا اور آخرت میں حصہ فوت کردیا۔ اگر تم اولاد میں خرابی دیکھو تو عام طور سے وہ والدین کی وجہ سے ہوگی۔‘‘

        آپ کا بھلا ہو یہ کتنا عجیب اورکتنا سچا کلام ہے!

مسلمانو!

        سچے مسلمان کو اپنے اولاد کے اپنے پروردگار اور اپنے بھائیوں کی طرف راستہ کی فکر اور پرواہ ہوتی ہے۔ اس کی ذمّہ داری اور کوشش صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو معاشرے سے بچائے اور انہیں ان کی مرضی کے مطابق رہنے دے۔ یہی پہلے مؤمنین کا راستہ ہے۔

        یہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خلیل حضرت إبراہیم علیہ السلام ہیں وہ فرماتے ہیں: ((یا رَبّ! مجھےبھی نماز قائم کرنے والا بنادیجئے، اور میری اولاد میں سے بھی (ایسے لوگ پیدا فرمایئے جو نماز قائم کریں۔) اے ہمارے پروردگار! اور میری دُعا قبول فرمالیجئے۔))

        اور یہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔وہ اپنے بیٹے کو پکار رہےہیں اور اصرار کے ساتھ اسے بلارہے ہیں، چنانچہ فرمارہے ہیں: ((بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجاؤ، اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔))

        اور یہ حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں جو اپنی اولاد سے اپنی آخری سانسوں میں عہد وپیمان لےرہے ہیں، جیسا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمیں اس کا واقعہ بیان کیاہے: ((کیا اُس وقت تم موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سےکہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ اُن سب نے کہا تھا کہ ہم اُسی ایک خدا کی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے۔ اور ہم صرف اُسی کے فرماں بردار ہیں۔))

        یہ سچے، پیروی کرنے والے مؤمنین کا قافلہ ہے ۔ یہ رحمٰن کے بندوں کا قافلہ ہے جو یہ کہتے ہوئے دعا کررہے ہیں: ((ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیز گاروں کا سربراہ بنادے۔))

        اے مؤمنو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سےڈرو اور ان نیک لوگوں کے ہدایت کے راستہ پر چلو ((یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور یہی ہیں جو عقل والے ہیں۔))

اللہ کے بندو!

        معزّز والد حضرات سب سے بڑی مشکل اور سب سے عظیم مصیبت وہ ہے جس سے بہت ساری اسلامی معاشروں کو تکلیف پہنچی ہے وہ والدین کی اپنی اولاد کی نگرانی اور ان کی نیکی اور تقویٰ پر تربیت میں کوتاہی کرنا ہے۔ اس کوتاہی کی بہت ساری نشانیاں ہیں۔

        اولاد کی تربیت میں کوتاہی کے مظاہر میں سے اولاد سےاعراض کرکے اس فانی دنیا کے کاموں میں مصروف ہونا ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پَر کے بھی برابر نہیں ہے۔ کتنے والد ایسےہیں جنہوں نے اپنے گھروں کوچھوڑ دیا ہے اور اس میں تھوڑی دیر کے لئے صرف کھانے یا پینے یا سونےکےلئے ہی بیٹھتے ہیں۔ اور باقی اوقات تو وہ خریدو فروخت اور مجلسوں اور گھومنے پھرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سارے ضروری کام اور حقوق ضائع ہورہےہیں۔ اگر یہ لوگ کسی معاملےیا تجارت کا سن لیں تو سچے دوستوں کو چھوڑ دیں اور ملنا جلنا کم کردیں۔ کیا انہیں یہ علم نہیں ہے کہ اپنے انتقال کے بعد جو سب سے بہترین چیز یہ چھوڑیں گے وہ نیک اولاد ہےجو ان کےلئے دعاکرے۔       

اے مؤمنو!

        اولاد کی تربیت میں جو کمی عام ہورہی ہے  اس کی صورتوں میں سےیہ بات بھی ہے کہ والدین اولاد کے سامنے گناہ کرنے کو ہلکا سمجھتےہیں اور ان کا غلطیوں اور نافرمانیوں کے بارے میں جری ہونا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ والدین بھی ان غلطیوں کی حمایت کرتےہیں اور وہ خود بھی انہیں کھلم کھلا کرتےہیں۔ بعض والدین ایسے ہوتےہیں جو کچھ گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ اپنی اولاد کے سامنے گناہ کرنے سے پرہیز نہیں کرتے۔ کتنے ہی ایسے والدین ہیں جو مثلاً گانوں کے سننے یا نا محرم عورتوں کو دیکھنے یا ان کے علاوہ دیگر گناہوں  میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ گناہ اپنی اولاد کے سامنے کرتے ہیں پھر ان کی اولاد وہ گناہ کرنےلگ جاتی ہے۔ ہر بچہ فطرت پر  پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔

        ہمارے جوان اسی چیز پر جوان ہوتے ہیں

                جس کی ان کا والد انہیں عادت ڈال دیتا ہے

اے مؤمنو!

        اولاد سے سب سے بڑی خیانت استعمال کے اچھی چیزوں کے بارے میں غفلت ہے جن کا اچھا استعمال نہ کرکے وہ ان کے ذریعہ بہت زیادہ شر اور فساد تک پہنچ جاتے ہیں   ، جیسے ٹیلی ویژن اور ان جیسی چیزیں۔ ان میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو دلوں کو بگاڑ دیتی ہیں، اخلاق کو  خراب کردیتی ہیں، آنکھوں کو اندھا کردیتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے راستہ سے روکا جاتا ہے۔

        ان لوگوں کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔ اللہ کی قسم۔ ایسے لوگوں نے ہی اپنی اولاد کو بدبخت بنایا ہے اور ان کی بھلائی اور درستگی کو ضائع کردیا ہے۔ ایسے لوگوں کےلئے ہلاکت ہے، ایسے لوگوں کےلئے ہلاکت ہے، ایسے لوگوں کےلئے ہلاکت ہے۔ انہوں نے ہر کمرے میں شیطان  رکھ دیا ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے راستہ سے روکتا ہے اور ٹیڑھ تلاش کرتا ہے!!

        اے مؤمنو اللہ کی قسم یہ خیانتوں میں سے سب سے بڑی خیانت ہے۔ وہ انسان جس نے اپنی اولاد  کو بگاڑنے کی کوشش کی کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے نجات پاجائے گا: ’’اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کسی بھی بندے کو اپنی مخلوق کا نگران بنائیں اور وہ اس حال میں  مرجائے کہ ان سے دھوکہ دہی کرنے والا ہو، یعنی اس نے ان کی خیر خواہی کے ذریعہ دیکھ بھال  نہیں کی تو وہ جنّت کی خوشبو بھی نہیں پاسکے گا۔‘‘

        ایسے انسان کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور اس دن کو یاد رکھناچاہئے جب اسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ انہیں پکاریں گے اور کہیں گے: تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا؟ اور تم  نے میرے اس ارشاد کے ساتھ کیا کیا تھا: (( اے ایمان والو!  اپنے  آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔))

دوسرا خطبہ:

        حمد وصلاۃ کے بعد! اے مؤمنو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو۔ اس بہت بڑی امانت، یعنی اولاد کی تربیت کی امانت کو ضائع کرنا، ان سے غفلت برتنا اور انہیں ان کی مرضی کے مطابق جینےدینا خیانت ہے، جیسے وہ جس وقت چاہیں نکل جائیں، جس سے چاہیں دوستی کریں، رات کو جاگیں اور دن کو سوئیں۔

        یہ ساری باتیں امانت کو ضائع کرنے میں شامل ہیں۔ اس کمی کی وجہ سے اس آخری وقت میں اڈوں اور آرام کی جگہوں پر جمع ہونا ہے  جنہیں کئی نوجوان کرائے پر لیتے ہیں، ان میں کافی دیر تک بیٹھتےہیں۔ چھوٹے اور بڑے وہاں پر اپنے والدین اور اپنے نگرانوں کی نظرسے دور عام طور سے کئی طرح کے گناہوں اور نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے ہیں     ۔ ان جگہوں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے بارے میں کوئی بھی  عالم اس بات میں شک نہیں رکھتا کہ یہ اجتماع اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اس کے رسول  ﷺ کے حکم کےخلاف ہے۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کی مخالفت ہے کیونکہ آپ ﷺ عشاء کی نماز کے بعد بات چیت کو اس لئے ناپسند فرماتے تھے کیونکہ یہ وقت کے ضیاع ،  ضروری ذمہ داریوں کو فوت کرنے  اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے مخلوق کو فطری چیزیں عطا کی ہیں جیسے رات کی نیند اور دن کو جاگنا ان کی مخالفت کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالی فرماتے ہیں: ((اور رات کو پردے کا سبب ہم نے بنایا۔ اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے مقرّر کیا۔)) اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں: ((اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی، تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو، اور دن کو ایسا بنایا جو تمہیں دیکھنے کی صلاحیت دے۔))

        یہ تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ جاگنا کسی ٹھیک کام کے لیے ہو تو ایسے کاموں کی کیا حالت ہوگی جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان اجتماعات میں سے اکثر میں لڑکے اور عقلی طور پر بے وقوف لوگ بے حیاء لوگوں کے گانے یا بری باتیں سنتے ہیں یا گھٹیا مناظر اور چیزوں کو دیکھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں جنہیں فطرت برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ مناظر نافرمانی کو بھڑکاتے ہیں،  بیماریوں کو پھیلاتے ہیں، شہوت کومشتعل کرتے ہیں اور دل میں بہت وسوسے ڈالتے ہیں۔ لیکن یہ لڑکے ان واقعات کی آگ سے اثر قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ صرف بُری عادت یا حرام تعلّقات ہیں، لہٰذا یہ لوگ کبیرہ گناہوں اور ناپسندیدہ معصیتوں میں لتھڑ جاتے ہیں   ۔

        اے جوانواس دن سے ڈرو جب تم سب اللہ کے پاس لوٹ کر جاؤ گے، جب   انسان بھائی سے بھی بھاگے گا، اور اپنے ماں باپ سے بھی، اور اپنے بیوی بچوں سے  بھی۔(کیونکہ) ان میں سے ہر ایک کو اُس دن اپنی ایسی فکر پڑی ہوگی کہ اُسے دوسروں کا ہوش نہیں ہوگا۔

        اے جوانو!  ان اجتماعات سے بچو، کیونکہ یہ ایسے شر ہیں جن میں کوئی خیر نہیں ہے۔ اے والد اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولادوں کو اس طرح کے  اجتماعات سے بچاؤ اور ان سے ان کی حفاظت کرو، کیونکہ یہ فساد کے اہم اسباب میں سے ہیں۔

        اے مؤمنو! اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ تمہیں نیکی اور تقویٰ کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو۔))

        ان اڈوں اور آرام دہ جگہوں کے مالکوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے پروردگار اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈریں اور وہ ایسے لوگوں کو یہ جگہیں کرایہ پر نہ دیں جن کے بارے میں یہ گمان ہو کہ وہ ان برائیوں کے لئے ان میں بیٹھیں گے۔ کیونکہ اس حالت  میں ان اڈوں اور آرام کی جگہوں کو کرایہ پر دینا حرام ہے اور اس پر اجرت لینا بھی حرام ہے۔

        لہٰذا اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور  اپنے  آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔

خطبة: التقصير في تربية الأولاد

المادة السابقة
المادة التالية

الاكثر مشاهدة

1. خطبة : أهمية الدعاء ( عدد المشاهدات83527 )
3. خطبة: التقوى ( عدد المشاهدات78484 )
4. خطبة: حسن الخلق ( عدد المشاهدات72751 )
6. خطبة: بمناسبة تأخر نزول المطر ( عدد المشاهدات60758 )
7. خطبة: آفات اللسان - الغيبة ( عدد المشاهدات55133 )
9. خطبة: صلاح القلوب ( عدد المشاهدات52321 )
12. خطبة:بر الوالدين ( عدد المشاهدات49582 )
13. فما ظنكم برب العالمين ( عدد المشاهدات48313 )
14. خطبة: حق الجار ( عدد المشاهدات44923 )
15. خطبة : الإسراف والتبذير ( عدد المشاهدات44245 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف