×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / حج و عمرہ / حج میں شرط لگانا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2843
- Aa +

جناب ِمن السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرا سوال یہ ہے کہ کیا حج کرنے والے کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ یہ شرط لگا کر کہے میرا محل (حلال ہونے کی جگہ) وہی ہے جہاں تو مجھے آگے جانے سے روکے؟ اور یہ کب کہے گا؟

الاشتراط في أداء النسك

جواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اما بعد۔۔۔

حج میں شرط لگانے کی اصل وہی ہے جس کو بخاری (۲۰۸۹) میں اور مسلم نے (۱۲۰۷)میں حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ’’آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  ضباعہ بنت زبیررضی اللہ عنہاکے پاس گئے تو ان سے عرض فرمایاکہ: لگتا ہے تم نے حج کا ارادہ کرلیاہے ؟ وہ کہنے لگی : اللہ کی قسم میں اپنے آپکو تکلیف میں پاتی ہوں ! تو آپ,صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نے ان سے ارشاد فرمایا:’’ تم حج کرو اور یہ شرط لگاکر کہوکہ یا اللہ میر ے حلال ہونے کی وہ جگہ ہے جہاں تو مجھے آگے جانے سے روکے‘‘ ۔

لہٰذا اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حج و عمرہ میں اس شخص کے لئے شرط لگانا مشروع ہے جسے کسی ایسے مرض وغیرہ کا اندیشہ ہو جواسے مناسکِ حج کے اتمام سے روکتا ہے اور یہی اہل ِعلم میں سے ایک جماعت کا قول ہے اور صحابہ میں سے حضرت علی ابن ابی طالب ، حضرت عائشہ اور حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہم جیسے عظیم صحابہ کا قول ہے ، اور تابعین میں سے امام شا فعی ، امام احمد و اسحاق و ابو ثورا ور ابن حزم رحمہم اللہ جیسے کبار تابعین کا قول ہے۔

اور اس مشروعیت کا محل مرض وغیرہ سے حاجت کی شرط کی وجہ سے ہے، اور وہ قربانی میں شروع کے وقت ہوتا ہے، اور اس میں نیت کافی نہیں ہوتی، بلکہ الفاظ کا کہنا ضروری ہے جیسا کہ آپصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نے ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا سے فرمایا:’’ تم حج کرو اور یہ شرط لگاکر کہوکہ یا اللہ میر ے حلال ہونے کی وہ جگہ ہے جہاں تو مجھے آگے جانے سے روکے‘‘ ۔

اور اگر ضرورت نہ ہو تو پھر علماء کے اصح قول کے مطابق یہ مشروع نہیں ہے، اس لئے کہ آپصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نے ایسا کرنے کے ساتھ ہر احرام کرنے والے کو حکم نہیں دیا یہ تو جب ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا نے اپنی صورت حال سے آگاہ کیاتب اللہ کے نبی نے ان سے یہ ارشاد فرمایا وگرنہ اصل میں تو حج و عمرہ کے اتمام کا وجو ب وہی ہے جو مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے : (ترجمہ) ’’اللہ کے لئے حج و عمرہ پورا کرو‘‘ (البقرۃ)

فائدہ:  اشتراط کا فائدہ بغیر ہدی (قربانی کا جانور) کے مفت میں حلال ہونے کا جواز ہے اور یہ اس لئے کہ اصل میں تو یہ اس شخص کے لئے ہے جو ارکان حج کو پورا کرنے سے روک دیا گیا ہو جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے: (ترجمہ) ’’ اگر تمہیں روک دیا جائے تو جوقربانی میسر ہو اسے اللہ کے حضور پیش کرو‘‘ ۔ (البقرۃ)

اسی طرح اس پر قضا نہیں ہے ،اس کے قول پر جس نے محصر پر قضا کے وجوب کا کہا ہے۔ واللہ أعلم

أ.د.خالد المصلح

24/ 11/ 1428هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں