×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / حج و عمرہ / رمضان کے ستائیسویں (۲۷) شب کو عمرہ

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2596
- Aa +

جو لوگ ماہ ِ رمضان کے ستائیسویں (۲۷) شب کو عمرہ کے لئے خاص کرتے ہیں تو آپ ان کو کیا کہیں گے، اور غیر طبعی ہجو م کی وجہ سے یہ اعتقاد کس چیز کا سبب بنتا ہے ؟

العمرة ليلة سبع وعشرين من رمضان

جواب

قرآن کریم ، سنت ِ رسولاور عملِ صحابہ ؓ سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں جو عمرہ کو ستائیسویں شب میں خاص کرنے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہو ، بلکہ یہ تو ان بدعات میں سے ہے جس کو لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑا ہے ۔ اور شاید لوگ اس رات کو اس لئے خاص کرتے ہیں کہ ان کو ماہِ رمضان میں عمرہ کی فضیلت کو پانے اور ستائیسویں شب کی فضیلت کو حاصل کرنے کی رغبت ہوتی ہے ا س لئے کہ اس رات اس کی بہت امید ہوتی ہے کہ شاید یہی شبِ قدر ہو۔ اسی وجہ سے میں اپنے بھائیوں کو ان باتوں کی طرف متنبہ کرنا چاہتا ہوں جن سے واضح ہوتا ہے کہ تخصیص کرنا غلط ہے۔

پہلی بات : یہ کہ ماہِ رمضان میں عمرہ کرنے کی جو فضیلت وارد ہوئی ہے وہ نہ کسی ایک رات یا ایک ہی وقت کے ساتھ خاص ہے بلکہ وہ پورے رمضان المبارک کے مہینہ میں ہے پہلی رات سے لے کر آخری دن کے غروبِ آفتاب تک ہے ۔

امام بخاریؒ و امام مسلمؒ حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا کہ آپ نے انصار کی ایک عورت کوارشاد فرمایا: ’’جب رمضان آئے تو عمرہ کرناکیونکہ رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے ‘‘ (رواہ البخاری ۱۷۸۲ ومسلم۱۲۵۶)

اور نبی ٔ اکرم نے اس فضیلت کو پانے کے لئے رمضان کے مہینے کا کوئی ایک وقت خاص نہیں فرمایا ، لہٰذا یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے مہینہ کا ابتدائی حصہ اور آخری حصہ برابر ہے۔

دوسری بات: قیام اور دعا مانگنے میں زیادہ کوشش اور مشقت کے اعتبار سے افضل رات شبِ قدر ہے اگر اس کاپتہ چل جائے ۔

اور جہاں تک راتوں میں قیام کی بات ہے تو وہ امام بخاریؒ اور امام مسلم ؒ کی روایت سے ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ’’ جس شخص نے شب ِ قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ‘‘۔ (رواہ البخاری ۲۰۱۴ و مسلم ۷۶۰)

اور جہاں تک دعا کی بات ہے تو امام احمد ؒ اور اما م ترمذی ؒ عبداللہ ابن بریدہ ؓ سے نقل فرماتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدۃ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کی خدمت میں عرض کی کہ اللہ کے رسول! اگر مجھے پتہ چل جائے کہ کو ن سی رات شب قدر ہے تو میں کیا دعا کروں؟ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایاکہ تم یہ کہو: ’’ اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف فرمادے‘‘( رواہ احمد ۲۴۸۵۶)اور یہ بات اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ صحاہ کرام ؓ کے نزدیک مشہور و معروف شب قدر میں دعا مانگنے کی فضیلت تھی اور اسی وجہ سے حضرت عائشہ ؓ نے سوال فرمایا کہ میں کیا دعا مانگوں؟شب قدر میں دعا مانگنے کا اجر وثواب اور اس کی قبولیت میں خصوصیت کی بناء پر اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ سب سے افضل دعا وہ ہے جو نماز میں مانگی جائے ، امام مسلم ؒ ابوصالح کے واسطہ سے ابوہریرہؓ سے اور وہ آپ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا : ’’بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس حالت میں ہوتا ہے جب وہ سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے لہٰذا تم دعا کی کثرت کرو‘‘ (رواہ مسلم ۴۸۲)

اور مسلم کی دوسری روایت ہے جسے عبداللہ ابن عباس ؓ آپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اور جہاں تک سجدہ کی بات ہے تو اس میں تم دعا کی کثرت کرو کیونکہ یہ بہت زیادہ اس بات کہ لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کی جائے ‘‘ (رواہ مسلم۴۷۹)

اسی لئے میں اپنے بھائیوں کو نصیحت کروں گا کہ وہ کوشش کریں ان اعمال کی جن کو اللہ کے نبی نے ہمارے لئے مسنون بنایا ہے جن میں ان دس راتوں کا قیام اور دعا کی کثرت اور ان مبارک راتوں میں زیادہ گڑگڑاناجہاں بھی ہم ہوں کیونکہ رمضان کے سارے پورے مہینے کے علاوہ اس رات میں (ستائیسویں شب) میں عمرہ کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے ، بلکہ ستائیسویں شب میں عمرہ کا ارادہ رکھنا اور عمرہ کرنا یہ ایک طرح سے دین میں زیادتی کرنے والی بات ہے۔ جس طرح کے احوال دیکھے جاتے ہیں ان لوگوں کے جو اس رات کو عمرہ کے لئے خاص کردیتے ہیں اور پھر ان میں سے کوئی بھی اطمینان اور خشوع و خضوع سے عمرہ ادا نہیں کر پاتا لوگوں کے رش اور بھیڑ کی وجہ سے ، بلکہ ہر کسی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جس قدر ممکن ہو جلدی عمرہ سے فارغ ہوجائے اور اس طرح نہ دعا مانگتا ہے اور نہ ہی سکینت ہوتی ہے بلکہ وہ لوگوں کے رش کی وجہ سے یا تو تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے یاپھرخود تکلیف کا سبب بن جاتا ہے اور یہ کوئی نیکی نہیں ہے ۔

خالد المصلح

06 /09/ 1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں