جب زانی مرد اپنی حرام اولاد کا اقرار کرے اور ان کو اپنی طرف ملحق کرنا چاہے تو کیا ان کو اس کی طرف ملحق کیا جائے گا؟ استلحاق الزانی ولدہ من الزنا
جب زانی مرد اپنی حرام اولاد کا اقرار کرے اور ان کو اپنی طرف ملحق کرنا چاہے تو کیا ان کو اس کی طرف ملحق کیا جائے گا؟ استلحاق الزانی ولدہ من الزنا
جواب
تمام اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ وہ عورت جس کے ساتھ زنا ہوا ہے اگر وہ شادی شدہ ہو تو اس کے حمل کو اس کے خاوند کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا ، البتہ ہاں اگر اس عورت کا خاوند اس بچے کی نفی کرے اور کہے کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے تو اس صورت میں بچے کو ماں کی طرف منسوب کیا جائے گا، جیسا کہ بخاری شریف (۲۰۵۳) اور مسلم شریف (۱۴۵۷) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’ صاحبِ فراش کے لئے بچہ اور زناکار کے لئے حجر(سزا )ہے‘‘ یعنی اس کے لئے اس کے سوا اور کچھ نہیں، اور اسی پر تمہید (۸/۱۸۳) وغیرہ میں ابن عبد البر نے اجماع ذکر کیا ہے۔
اور اگر وہ عورت جس سے زنا کیا گیا ہے وہ غیر شادی شدہ ہواور اسے زنا سے حمل ہو جائے توپھرجمہورعلماء کا یہ مشترکہ فیصلہ ہے کہ کہ بچے کو زانی کی طرف ملحق نہیں کیا جائے گا،ان علماء نے آپ ﷺکے اس ارشاد مبارک سے استدلال کیا ہے کہ ’’زناکار کے لئے سزا ہے‘‘ پس آپ ﷺنے زانی کے لئے کچھ نہیں مقرر کیا۔
اور اہلِ علم کی ایک جماعت جن میں حضرت حسن ،حضرت ابن سیرین،حضرت نخعی اور حضرت اسحاق رحمہم اللہ سرِفہرست ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ اگر زانی بچے کو اپنی طرف ملحق کرنا چاہے تو بچے کو اس کی طرف ملحق کردیا جائے گا،اور یہی شیخ الاسلا م امام ابن تیمیہؒ کا بھی قول ہے، اور ان حضرات نے امام مالک ؒ کی کتاب موطأمیں ذکرشدہ روایت(۷۴۰/۲)سے استدلال کیا ہے کہ’’حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ زمانۂ جاہلیت کی اولاد کو اسلام میں ان لوگوں کے ساتھ ملحق کرتے تھے جو ان کا دعوی کرتے تھے‘‘ اور فرماتے ہیں کہ جمہور نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ شادی شدہ عورت پر محمول ہے، اور یہی قول قابلِ نظر ہے۔