×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نکاح / چھوٹی بچی کے ساتھ نکاح

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3090
- Aa +

میں نے ایک مجلس میں چھوٹی بچی سے لطف اندوزی کے جواز میں خومینی کا فتوی پیش کیا پھر مجھے ایک رافضی ملا جس نے مجھ پر رد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے نزدیک بعض فقہی کتابوں میں چھوٹی بچی سے لطف اندوزی کے جواز میں بعض علماء کا قول بیان کرو۔ لھذا ہمارے نزدیک چھوٹی بچی سے تمتع کے جواز کا مقصود و معرفت اور اس کے رد کا جواب ابھی تک میں نہیں دے سکی اور اس رافضی نے مجھے دو کتابوں کے نام بھی بتائے جس میں مجھے ایک کتاب کے مصنف کا نام یاد ہے جو کہ مقدسی کی تھی اور مجھے اس کے کلمات تو ملے ہیں جیسا اس نے لکھا تھا لیکن مجھے اسکا جواب ، شرح ، یا تفسیر نہیں ملی۔

نكاح الرضيعة

جواب

بعد الحمد والصّلوۃ

سب سے پہلے میں آپکو جس چیز کی نصیحت کرتا ہوں وہ کہ ہر وہ کام جس میں بحث و مباحثہ ہو اس میں دخل نہ دو اس لئے کہ ہمارے اسلاف اپنے علم کامل اور قوت یقین کے باوجود بھی اہل باطل کے ساتھ بحث و مباحثہ اور مناظروں سے بچا کرتے تھے اور انہوں نے بھی اس سے بہت زیادہ

منع فرمایا ہے لہذا میں  آپکو انکے نقش قدم پر چلنے کی نصیحت کرتا ہوں اور ان میں اگر کوئی اس بحث و مباحثے میں پڑا بھی ہے تو وہ تب جب اس کو اسکی مصلحت و منفعت نظر آئی ہو۔ اور بعض نے تو اسکو ضرورت کے تحت کیا ہے جیسا کہ امام احمد بن حنبل رح فرماتے ہیں کہ "ہم سکوت و خاموشی کا حکم دیتے تھے لیکن جب ھمیں کسی ایسے کام کے لئے بلایا جاتا جسکے بغیر ہمیں کوی چارہ کار نہ ہوتا تھا تو پھر ہم اسکو دفع کرتے تھے اور مخاطب نے جو کہا ہوتا تھا اس کی نفی میں ہم بات کرتے تھے" اور یہ بھی فرمایا کہ "ہم خاموش رہتے تھے یہاں تک کہ ہمیں کلام کی طرف بلایا جاتا تو اگر اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا تو ہم کلام کرتے" لھذا انسان کے پاس ایسا علم راسخ ہونا چاہئے جس کے ذریعے سے وہ مشبہھین کے تشبیہ سے بچاؤ کر سکے اور انکی ضلالات کا جواب دے سکے۔

رہی بات چھوٹی بچی سے نکاح کی تو اس کے بارے میں ابن المنذر فرماتے ہیں کہ " اہل علم سے ہم نے جو محفوظ کیا ہے اس میں جامع بات یہ ہے کہ باپ کا اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح کرنا جائز ہے (اگر باپ اس کو اسکے کف سے بیاہ دے) اور مراد اس سے عقد نکاح ہے رہی بات استمتاع کی تو جب تک سنِ بلوغ تک نہیں پہنچتی تو اس سے استمتاع ممکن نہیں ہے اور علماء کی ایک جماعت نے اس کی حد نو سال بتائی ہے اور حد مقرر کرنا غالب حکم پر ہے اگر وہ اس عمر میں بھی اسکی طاقت نہ رکھتی ہو تو اس کے ساتھ وطی کرنا ناجائز ہے اس لئے کہ اس میں اسکا ضرر اور نقصان ہے اور رہی بات چھوٹی بچی سے تمتع حاصل کرنے کی (جیسا کہ آپ نے ذکر کیا) تو اس سے مراد صرف وطی اور اس کے مقدمات ہیں اسلئے کہ متعہ ایک ایسا عقد ہے جس سے استمتاع مقصود ہوتا ہے کیونکہ عاقد اپنا مال متعہ ہی کے لئے خرچ کرتا ہے نہ کہ اسکے لئے جو عقد نکاح کے حقوق و ارتباط سے ثابت ہوتا ہے لھذا علمائے اہل سنت اور خمینی نے جو فرمایا ہے اس میں فرق کریں۔ واللہ اعلم

خالد المصلح

10/04/1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں