×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نماز / عید اور جمعہ کا اکٹھا ہونا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2859
- Aa +

جو شخص نمازِ عید میں شریک ہو ا کیا اس سے جمعہ ساقط ہوجائے گا؟ اور کیا وہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کرے گا یا نہیں ؟

اجتماع العيد والجمعة

جواب

اہلِ علم کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب جمعہ اور عید اکھٹے ہوجائیں تو جس شخص نے نمازِ عید ادا کی ہے اس کے لئے جمعہ کی نماز ادا کرنا مستحب ہے ۔

اور اختلاف اس رخصت میں ہے کہ جس نے نمازِعید ادا کی وہ نمازِ جمعہ ادا نہ کرے ، اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور اس میں مختلف اقوال ہیں:

پہلا قول:  جس شخص نے نمازِعید ادا کی اس کے لئے رخصت ہے کہ وہ نمازِ جمعہ ترک کردے اور نمازِ ظہر ادا کرلے، مگر اس قول کے مطابق امام پر واجب ہے کہ وہ نمازِجمعہ قائم کرے تاکہ وہ شخص نمازِ جمعہ میں شامل ہوسکے جو جمعہ ادا کرنا چاہتا ہے اور وہ شخص بھی جمعہ ادا کرسکے جس نے نمازِعید ادا نہیں کی اور یہ امام احمد بن حنبل ؒ کا مذہب ہے۔

دوسرا قول:  یہ قول امام ابوحنیفہ ؒ ، امام مالک ؒ ، امام ابن حزمؒ ، امام ابن المنذرؒ ، اور امام ابن عبد البرؒ کا ہے ، ان کے نزدیک جس شخص پر نمازِ جمعہ واجب ہے اس کو نمازِ عید ادا کرنے کے باوجود بھی نمازِ جمعہ ترک کرنے کی رخصت نہیں ہے ۔

تیسرا قول:  یہ قول امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کی ایک روایت بھی ہے ، ان کے نزدیک وہ لوگ جو شہر سے دور دیہات یا بستی وغیرہ میں رہتے ہیں ان کے لئے رخصت ہے کہ وہ نمازِ جمعہ ادا نہ کریں اور نمازِ ظہر ادا کرلیں۔

چوتھا قول:  یہ قول عطاء بن ابی رباح ؒ اور حضرت علی کرّم اللہ و جہہ کا ہے اور حضرت زبیرؓ سے ببھی ایک روایت ہے، ان کے نزدیک جب نمازِعید اور جمعہ اکھٹے ہوجائیں تو نمازِعیدنمازِ جمعہ اور ظہر کے لئے کافی ہوجائے گی۔

ان میں سے ہر ایک فریق نے اپنے مذہب پر جو دلائل دیے ہیں تو ان تمام اقوال میں صحت کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب تر اور دلائل کے لحاظ سے سب سے اچھا قول امام احمد بن حنبل ؒ کا ہے ، جس میں انہوں نے اس شخص کے لئے رخصت دی ہے جو نمازِعید ادا کرلے کہ وہ نمازِجمعہ ادا نہ کرے۔

اور دلیل کے طور پروہ حضرت امیر معاویہؓ کی روایت پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے زید بن ارقمؓ سے پوچھا کہ :’’کیا تم نے رسول اللہ کے ساتھ دو عیدیں ادا کیں ‘‘؟ انہوں نے فرمایا:’’جی ہاں ، اللہ کے رسولنے دن کے پہلے حصے میں نمازِعید ادا کی اور پھر نمازِجمعہ کی رخصت دے دی‘‘ اس حدیث کے روایت کرنے والوں میں (امام احمد بن حنبل ؒ  ۱۸۸۳۱ ،  امام ابو داؤدؒ  ۱۰۷۰ ،  امام نسائی  ۱۵۹۱،) ہیں اور اس کی تصحیح ابن المدینیؒ نے کی ہے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی۔ وہ اسی قول پر دوسرا استدلال اس حدیث سے کرتے ہیں جس کو امام ابو داؤد ؒ اور امام ابن ماجہ ؒ نے پیش کی ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایاکہ:’’اس دن میں تمہارے لئے دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں پس جو چاہے تو اس کے لئے نمازِجمعہ کافی ہوجائے گی اور ہم اکھٹے ہیں ‘‘ (امام ابوداؤدؒ ۱۰۷۳ ،  امام ابن ماجہؒ  ۱۳۱۱)  یہ روایت اگر چہ مقال سے خالی نہیں ہے مگر پھر بھی اس حدیث سے استدلال کیا جاسکتا ہے ، واللہ أعلم۔

أ.د.خالد المصلح

29 / 9 /1428هـ

 


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں