×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نماز / نمازِ عید کے دو خطبات ہیں یا ایک؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3539
- Aa +

نمازِ عید کے دو خطبات ہیں یا ایک؟

خطبة العيد واحدة أم اثنتان؟

جواب

اہلِ علم کی ایک جماعت کا مؤقف یہ ہے کہ عید کے دو خطبات ہیں ، اور اس بات پر اجماع وارد ہواہے سوائے چند ایک اہلِ علم کے جن میں ابن حزم ؒ میں کتاب المحلّی میں ان کا ذکر مذکور ہے ۔ مجھے بہت زیادہ تلاش کے باوجود بھی نہ تو متقدمین ِ اہلِ علم اور نہ ہی مختلف مذاہب کے فقہاء میں سے کسی کا یہ مؤقف ملا کہ جس سے خطبہ ٔ  عید ایک ثابت ہو سوائے اس قول کے جس کو امام صغانی ؒ نے ابوسعید ؓ کی روایت کی شرح کے تحت منقول فرمایا ہے ۔ حدیث ابو سعید ؓ میں منقول ہے کہ اللہ کے نبی علیہ السلام نماز ادا کرتے عید الاضحی کے دن عید گاہ کی طرف خروج فرماتے اور سے سے پہلے عمل یہ تھا کہ اللہ کے نبی علیہ السلام نماز ادا کرتے پھر اللہ کے نبی علیہ السلام واپس پلٹ کر لوگو ں کے بالمقابل تشریف فرما ہوتے اور لوگ اپنی صفوں میں ہی ہوتے تھے تو اللہ کے نبی علیہ السلام انہیں وعظ و نصیحت کرتے اور احکام بیان فرماتے ۔  (فی سبیل السلام  ۱۴۰/۲) اس کی شرح کے تحت امام صنعانی ؒ فرماتے ہیں کہ:

’’ا س روایت میں یہ مذکور نہیں کہ نماز عید کے دو خطبے تھے جمعہ کی طرح ،اور اللہ کے نبی علیہ السلام نے دونوں خطبوں یعنی نمازِعید اور نماز جمعہ میں مطابقت ظاہر فرمائی ہو یا اپنے قول و بیان اور وعظ و نصیحت کے درمیان کچھ توقف فرمایا ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ بات اللہ کے نبی علیہ السلام کے فعل سے ثابت نہ ہو بلکہ لوگوں نے نماز جمعہ پر قیاس کرتے ہوئے اس اپنا لیا ہو‘‘۔

اہلِ علم اور فقہاء کرام کے اقوال پر نظر ثانی کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے خطبہ عید کو خطبہ جمعہ پر قیاس فرمایا ہے اور اس پر دلائل بھی دئیے ہیں مگر اس کا اثبات ابھی محل ِ نظر ہے ۔ پس وہ استدلال کرتے ہیں اس روایت سے جس کو امام ابن ماجہ ؒ نے اسماعیل بن مسلم کے طریق سے نقل کیا ہے کہ حضرت جابر ؓ نے فرمایا:’’ اللہ کے نبی عیدالفطر اورعید الاضحی کے دن نکلے اور خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر کچھ دیر کے لئے بیٹھے اور پھر قیام فرمایا ‘‘ اس روایت میں اسماعیل بن مسلم با لاجماع ضعیف ہیں اور اس طرح دوسری روایت جس کو امام بزار ؒ نے اپنی مسند میں حدیث سعد بن ابی وقاص کے تحت نقل کیا ہے کہ وہ دو خطبے ارشاد فرماتے اور ان کے درمیان ایک جلسہ کے ساتھ تفریق ڈالتے یعنی تھوڑی دیر بیٹھتے ۔ امام ہیثمی ؒ نے مجمع الزوائد (۲۰۳/۲) میں ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ :’’ اس کی سند میں ایسا راوی ہے جس کو میں نہیں جانتا ‘‘ اور امام نوویؒ نے اپنی کتاب ’’الخلاصہ‘‘ میں نقل فرمایا ہے کہ :’’جہاں تک میں نے جانا ہے کہ عید کے خطبہ میں کہیں سے ثابت نہیں مگر قول معتمد یہی ہے کہ اس جمعہ پر قیا س کیا گیا ہے ، اور ہو سکتا ہے کہ ہمارے شیخ العثیمینؒ کی تحقیق کے مطابق ان کی بات زیادہ واضح ہو جو کہ اس حدیث کے ظاہر کے موافق ہے جس میں خطبہ عید کو ایک خطبہ قراردیا گیا ہے اور اس قول میں بارہا اختلاف ہوا اور راجح اسی کو قرار دیا گیا کہ یہ ایک خطبہ ہے، واللہ أعلم۔

خالد بن عبد الله المصلح


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں