×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نماز / طویل طبّی آپریشنزمیں نمازوں کو جمع کرنے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3674
- Aa +

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اما بعد۔۔۔ ایسے آپریشن جس میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور سرجن اس وقت آپریشن تھیٹر کو بھی نہیں چھوڑ سکتا اور نمازبھی اس کی قضا ہورہی ہو تو اس صورت میں اس پر کیا کرنا واجب ہے؟

حكم الجمع بين الصلوات في العمليات الطبية الطويلة

جواب

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حامدا و مصلیا

امابعد۔۔۔

اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر نمازوں کو ان کے متعینہ اورقات میں فرض کیا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿انّ  الصلوٰۃ کانت علی المؤمنین کتاباََموقوتاََ﴾  (ترجمہ)  ’’بے شک نماز مؤمنوں پر وقتِ متعےّنہ میں فرض کردی گئی ہے‘‘  (سورۂ نساء ۱۰۳) لہٰذا مؤمنوں پر واجب ہے کہ وہ نمازوں کو ان کے متعینہ اوقات میں ادا کریں جیسا کہ امرِخداوندی ہے :  ﴿حافظوا علی الصلوات والصلوٰۃ الوسطیٰ وقوموا للہ قانتین﴾(سورۂ بقرہ۲۳۸)  (ترجمہ) ’’ نمازوں کی پابندی کرو اورخاص کر نمازِ وسطیٰ (نمازِعصر) کی اور اللہ کے سامنے خشوع کے ساتھ کھڑے رہو‘‘  اس تحقیق کے بعد جاننا چاہئے کہ

کی دوحالیں ہیںتنمازوں کے اوقا

پہلی حالت:  وسعت کی حالت ، اوراس حالت میں پانچ اوقات ہیں ، ہر نماز کا اپنا ایک خاص وقت ہے ، جیسا کہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:  ﴿أقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل و قرآن الفجر ان قرآن الفجر کان مشھودا﴾ (سورہٗ اسراء ۷۸)  (ترجمہ)  ’’ آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کے اندھیر ے تک نمازیں ادا کیجئے اور صبح کی نماز بھی ادا کریں بیشک صبح کی نماز(فرشتوں کے )حاضر ہونے کا وقت ہے ‘‘۔ اور جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :  ﴿فسبحان اللہ حین تمسون وحین تصبحون و لہ الحمد فی السمٰوٰت والأرض و عشےّاََ حین تظھرون﴾ (سورۂ روم۷۱-۱۸)  (ترجمہ)  ’’پس جب بھی صبح اور شام کرو تو پاک اللہ کی یادکرو، اور آسمانوں اور زمینوں میں اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اوربعد زوال (بھی تسبیح کیا کرو) اور ظہر کے وقت (بھی تسبیح کیا کرو)‘‘اور آپ ﷺ کے حدیث میں قولاََ و فعلاََ ابتداء سے لیکر انتہا ء تک ان نمازوں کے اوقات کا بیان آیا ہے ، صحیح مسلم(۶۱۴) میں حضر ابو موسی ؓ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی نمازوں کے اوقات کو معلوم کرنے کے لئے آیا تو آپ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہیں ارشاد فرمایا، راویٔ حدیث فرماتے ہیں کہ: ’’ پھر جب صبح طلوع ہوئی تو آپ ﷺ نے فجر کی نماز قائم کی ، او رلوگ اس وقت (اندھیرے کی وجہ سے ) ایک دوسرے کو نہیں پہچان رہے تھے ، پھر اسے حکم دیا تو جب زوال کا وقت کا ہو اتو ظہر کی نماز قائم کی ، قائل کہتا ہے کہ اس وقت آدھا دن گزر گیا تھا، اور وہ ان میں سب سے زیادہ جاننے والا تھا ، پھر اسے حکم دیا تو عصر کی نماز قائم کی جبکہ اس وقت سورج بلندتھا، پھر اسے حکم دیا تو اس نے مغرب کی نماز قائم کی جبکہ اس وقت سور ج غروب ہوچکا تھا ، پھر اسے حکم دیا کہ وہ عشاء کی نماز قائم کرے جبکہ اس وقت شفق کی سرخی غائب ہوچکی تھی ، پھر اگلے دن فجر مؤخر کی، یہاں تک وہ اس چلا گیا، قائل کہتا ہے کہ:سورج طلوع ہوچکا تھا یا ہونے والا تھا،  پھر ظہر مؤخر کی یہاں تک کہ وہ کل کی طرح عصرکے قریب تھی ، پھر عصر مؤخر کی یہاں تک کہ وہ اس سے چلا گیا ، قائل کہتا ہے کہ : سورج خوب سرخ ہوگیا تھا، پھر مغرب مؤخر کی یہاں تک کہ وہ شفق کی سرخی ختم ہونے کے وقت تھی ،پھر عشاء مؤخر کی یہاں تک کہ رات کے تین پہروں میں سے پہلا پہرہوگیا ، پھرصبح کی اور اس سائل کو بلاکر ارشاد فرمایا: ’’وقت ان دونوں کے درمیان ہے‘‘۔

دوسری حالت:  عذر کی حالت، اور اس حالت میں تین اوقات ہیں ، فجر وقت ہے ، ظہر اور عصر وقت ہے ، مغرب اور عشاء وقت ہے ، اور متعدد احادیث میں آپ ﷺ سے حالت ِ سفر میں جمع کرنا ثابت ہے ، اوراسی طرح عذر اورحرج کو دور کرنے کی وجہ سے حالتِ اقامت میں بھی ثابت ہے ،جیسا کہ صحیح مسلم (۷۰۵) میں حضرت سعید بن جبیر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ  ’’آپ ﷺ نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و خطر اور بارش کے ظہر اورعصر اور اور مغر ب اور عشا ء کو جمع فرمایا‘‘، سعید بن جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ تو فرمایا: ’’تاکہ آپؑ اپنی امت کو حرج میں نہ ڈالے ‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’میری امت حرج میں نہ پڑ جائے ‘‘، یہی اصل قاعدہ ہے جس پر ضرور کے وقت جمع کرنے کی مشروعیت کے وقت اعتماد کیا جاسکتاہے ، اور مالکیہ ، شافعیہ ، اورحنابلہ وغیرھم میں جمہورعلماء کے نزدیک یہی اصل ہے ، اگرچہ جمع کرنے کے لئے حاجتِ مبیحہ کے حکم میں ان کا اختلاف ہے ، اور اباحتِ جمع میں جو سب سے أقرب الی الصواب قول ہے تو وہ یہ ہے کہ :’’جس کام میں بھی انسان حرج اور مشقت لاحق ہو تو اس کی وجہ سے اس کے لئے جمع کرنا لازم ہے ، بشرطیکہ اس کو وہ اپنی عادت نہ بنائے ‘‘، یہی اہلِ علم میں سے ایک جماعت کا قول ہے ، جن میں سے ابن سیرین ، ربیعہ ، ابن المنذر وغیرھم رحمہم اللہ سرِ فہرست ہیں ، اور یہی ہمارے شیخ ابنِ عثیمین کا بھی قول ہے ، اسی بناء پر ایک طبیب کے لئے ضرورت کے وقت جمع کرنا جائز ہے ، چاہے وہ آپریشن تھیٹر میں ہو یا چاہے اس کے علاوہ کسی اورایسی حالت میں ہو کہ وہاں موجود رہنا اس کے لئے ضروری ہے ، لیکن جمع بین الصلاتین میں جس تنبیہ کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اس میں تساہل سے احتیاط برتنی چاہئے ، اس لئے کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بغیر عذر کے کسی بھی حال میں جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے ، جیسا کہ تمہید (۲۱۰/۱۲) میں ابن عبد البرنے ذکر کیا ہے ، اور عمرابن الخطاب ؓ سے منقول ہے کہ اس طرح کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ واللہ أعلم بالصواب۔

آپ کا بھائی

أ.د.خالد المصلح


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں