-پہلا خطبہ-
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، ہم اسی کی حمد و ثنا ء بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ، اور ہم اللہ پاک سے اپنے نفس کے شرور اور اپنے اعمال کی برائیوں سے پناہ مانگتے ہیں ، جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو گمراہ کردے تو آ پ اس کے لئے کوئی راہ دکھانے والا اور کوئی دوست نہیں پائیں گے، ٍاور میں اس بات ک ی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں ، اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ آپ ﷺپر اور آپ ﷺکی اقتدا ء کرنے والوں پر قیامت تک رحم فرمائے آمین
امابعد۔۔۔
سب سے سچی بات یقینا اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین راستہ محمد ﷺکا ہے ، اور تمام کاموں میں برائی ان میں نئی چیز کا پیدا ہونا ہے ، اور ہر نئی پیدا کردہ بات بدعت کہلاتی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
اے اللہ کے بندو! یقینا اللہ رب العزت کی اپنے بندوں پر بیش بہا اور ان گنت نعمتیں ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہوتو انہیں شمار نہیں کرسکتے ‘‘ ، اس لئے کہ اللہ جلّ جلالہ کی نعمتیں صبح و شام اپنے بندوں پر نازل ہوتی ہیں ، مخلوق میں سے ہر جاندار ہر لمحہ ہر گھڑی خون کی گردش کی طرح اللہ کی نعمتیں ہیں جن کا شکر ادا کرنا واجب ہے ، پس اللہ پاک کے لئے بہت زیادہ شکر وحمد ہے اور اس کی حمدو ثبناء ہم شمار نہیں کرسکتے ، اللہ ایسا ہے جس طرح خود اس نے اپنی تعریف بیان کی ہے ۔
اے ایمان والو! اے اللہ کے بندو ! ان نعمتوں کے کچھ حقو ق ہم پر واجب ہوتے ہیں ، جن کا اللہ کے سامنے ہم سوال ہوگا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (ترجمہ) ’’ اس دن تم سے ضرور بضرور نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ ، امام قتادہ ؒ فرماتے ہیں :’’ اللہ ہر نعمت والے سے اس پر نازل شدہ نعمت کے بارے میں پوچھے گا ‘‘ ، لہٰذا ہر نعمت کے بارے میں صاحبِ نعمت سے سوال ہوگا اور یہ ہر اس نعمت کو شامل ہے جن کا اللہ رب العزت نے اپنے بندوں پر فضل فرمایا۔
اے لوگو! اللہ رب العزت کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ’’امن‘‘ کی نعمت ہے ، حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ لفظ’’نعیم‘‘ جو آیت مبارکہ میں وارد ہوا ہے جس میں اللہ پاک نے فرمایا: ﴿لتسئلن یومئذ عن النعیم﴾ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نعیم سے مراد ’’امن اور صحت ہے‘‘۔
اے لوگو! یہ نعمت کا قیام و اصلاح نعمت ِ امن پر منحصر ہے ، امن تمام نعمتوں کا جامع ہے کیونکہ امن کے بغیر ہر نعمت کھوکھلی اورخراب ہے ۔ اللہ کے حبیب ﷺنے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے جس شخص نے اپنے گھر میں امن کے ساتھ ، عافیتِ جسم کے ساتھ اور اس حال میں کہ اس کے پاس اس دن کا کھانا تھا ، صبح کی تو گویا اس طرح کہ اس کے لئے تمام دنیا جمع کردی گئی‘‘۔
اے ایمان والو! جب امن کھو جاتا ہے تو زندگی کی بقاء نہیں رہتی اور زندگی بے مزہ ہوجاتی ہے ۔ پس دین ودنیا کی بقاء اور اصلاح کے لئے امن ضروری چیز ہے ، لہٰذا سب سے مطلوبہ چیز امن ہے ۔ اور امن ہی ہر خیر اور اچھائی کی بنیاد ہے ، اسی لئے جب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے اہل و عیال کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑا تو سب سے پہلے ان کے لئے امن کی دعا مانگی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (ترجمہ) ’’ اور(وہ وقت یادکرو) جب ابراہیم نے کہا کہ اے پروردگار اس شہر کو پر امن بنادے اور اس کے اہل میں سے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے تو اس کو ثمرات میں سے رزق عطاء فرما ، اور جس نے کفر اختیار کیا تو میں تھوڑی دیر کے لئے اسے لطف اٹھانے کی مہلت دوں گا پھر اسے آگ کے عذاب میں دھکیل دوں گا اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ‘‘۔
اے لوگو! یقینا امن کی قدر وہی لوگ کرتے ہیں جو اس کو کھو چکے ہوں ، تحقیق اللہ پاک نے تمہارے لئے تمہارے لئے گردو نواح کے حالات کو مقام عبرت اور نصیحت بنایا ہے اور خوش بخت وہی ہوتا ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے۔
اے ایمان والو! یقیناسوچ و فکر میں خلل و اضطراب کا پیدا ہونا ان بڑے اسباب میں سے ہے جو نعمتِ امن کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں پس سوچ و فکر میں خلل وضطراب کا پیدا ہونا ایسا پردہ ہے جو بصیرت پر حائل ہوجاتا ہے اور انسا ن کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے پھر وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتا ہے ۔
اے ایمان والو! سوچ میں خلل اور عقائد میں منحرف ہونے کی ایک بڑی شکل دوسروں کو کافر قرار دینے میں غلو کا اختیار کرنا ہے ، اسی تکفیر کے ذریعے سے خون مباح ہوتے ہیں اور اموال کو حلال سمجھا جاتا ہے اور ملکوں کو تباہ کیا جاتا ہے ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ اس تکفیر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطروں کے بارے میں فرماتے ہیں :’’ یہ لوگ اپنے انکار کرنے اور گناہوں اور برائیوں کی بدولت تکفیر کا شکار ہوئے ہیں اور ان کے گناہوں کی بدولت ان کی تکفیر پر خون و مال کا حلال ہونا اور دار اسلام کو دار کفر اور اپنے دار کو دار اسلام گرداننا ، جیسے اعمال مترتب ہوتے ہیں ، کیونکہ باطل کے ذریعے سے انکار و تکفیر کرنا اس عمل کو تاریخ نے ہر فتنہ و فساد اور مصیبت کا دروازہ بتایا ہے۔
قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں :’’اہلِ تاویل کے بارے میں قول تکفیر کے اختیار کرنے میں احتراز برتنا چاہئے کیونکہ نمازیوں کے خون کو حلال سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے ‘‘، پھر فرمایا: ’’ ہزار کافروں کو کافر قرار نہ دینے کی غلطی اس غلطی سے أھون (آسان) ہے کہ مسلمانوں کا خون بہایا جائے جو کہ حرام ہے ‘‘۔
اے ایمان والو! دوسروں کو کافر قرار دینے میں خوارج سب سے بڑے ہیں ، اور اللہ کے نبی ﷺنے ان کے مسلک کی مذمت بیان فرمائی ہے اور ان کا سبب بیان فرمایاکہ ’’ وہ لوگ قرآن تو پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ لوگ اہلِ اسلام کو قتل کریں گے اور اہلِ کفر کو چھوڑدیں گے‘‘۔
ہاں ، یہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہیں مگر وہ اس کے معانی نہیں سمجھ پاتے ، ہاں یہ لوگ اپنی گمراہی کا استدلال قرآن سے ہی کرتے ہیں ، پھر اس کو اس کے غیر محل پر بیان کرتے ہیں ، جیسا کہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :’’ ان لوگوں نے قرآن پاک کی ان آیات کو لیا جو کفار کے بارے میں نازل ہوئیں اور پھر ان آیات کو مؤمنوں پر منطبق کردیا‘‘۔
اے ایمان والو! نوجوانوں کی وہ جماعتیں جو بغیر کسی ہدایت کے دوسروں کو کافر قرار دیتی ہیں ان کی اس خواہشِ نفسانی ان کو اس عمل پر لے آئی ہے کہ وہ اپنے اپنے اہل وعیال اور شہریوں پر مختلف جرائم کا ارتکاب کریں ، اس نے ان لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے، کھیتی اور لوگوں کو تباہ کرنے پر لا کھڑا کیا ہے ، اور اس چیز گواہ اور دلیل وہ تمام باتیں ہیں جن کو ہم دیکھ اور سن رہے ہیں ، زمین کے مشرق ومغرب میں نام نہاد جہاد کے نام پر جھوٹ اور بہتان کے ذریعے مسلمانوں اور اسلام پر جو کھلے فساد اور برائیاں کی جا رہی ہیں وہ سب ان لوگوں کی بدولت ہے جو غلو کرتے ہیں اور دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ کاش کہ وہ جانتے کہ وہ کس حق کی مدد کررہے ہیں اور کس خیرکو پھیلا رہے ہیں اور کس قدر سچے ہیں وہ اوصاف جو نبی کریم ﷺنے ان کے بارے میں بیان فرمائے ہیں کہ :’’ جن کے دل شیطانوں کے دلوں کی طرح ہیں انسانوں کی شکل میں ‘‘۔
اے ایمان والو! شیطان کا ان کے لئے ان کے اعمال کا مزین کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے برے افعال و برے فسادات کو جہاد و اصلاح اور اعلائے کلمۃاللہ کا نام دیا پس یہ ناکام و نامراد ہوئے ۔
اسلام کی کوہان کی چوٹی جہاد ہے ، اور جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ہوتا ہے اور جہاد نورِ شریعت اور نبی کریم ﷺکے طریقے کے مطابق ہوتا ہے ، سچ فرمایا حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے جب ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متعلق پوچھا گیا: (ترجمہ) ’ ’کہو کیا ہم تم کو بتائیں کہ اعمال کے لحاظ سے زیادہ خسارہ میں کون ہے ؟ وہ لوگ ہیں جن کی کوششیں دنیاوی زندگی میں گم ہوکر رہ گئیں اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ بہت اچھے اعمال کرتے ہیں ‘‘ ۔حضرت علی کرّ م اللہ وجہہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اہلِ حروراء یعنی خوارج ہیں جو ملک میں ظاہر ہوئے اور اہلِ اسلام کو کافر قرار دیا ، اور ان کے خونوں کو حلال سمجھنے لگے ، یہاں تک کہ ان کے شاعر نے قاتلِ علی کرّم اللہ وجہہ چوتھے خلیفہ ، رسول اللہ ﷺکے داماد اور چچا زاد کے بارے میں کہا
ترجمہ
اس قتل کرنے والے کا ارادہ یہی تھا کہ وہ اس ضرب کے ذریعہ سے عرش والے اللہ کی خوشنودی حاصل کرے ۔۔۔۔۔۔
جب بھی کسی لمحہ میں اسے یاد کرتا ہوں تو میں ایسے تمام مخلوق کے مقابلے میں اللہ کے ہاں میزان میں زیادتی حاصل کرنے والا گمان کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔
پس اس شخص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قاتل کوتمام مخلوق میں اللہ کے ہاں میزان میں بھاری بنادیا۔۔۔۔۔۔
اے ایمان والو! تکفیر میں غلو کرنے کا فعل جب عقلوں پر حاوی ہوجاتا ہے تووہ عقلیں اپنی سمجھ کھو بیٹھتی ہیں ، اور وہ عقل والوں کو بھی ناسمجھی ، اوچھا پن اور کھیل کود کی گمراہیوں میں لے جاتی ہیں ، لگاتارو مسلسل تباہ کاری ، بم بلاسٹنگ ، دوسروں کو کافر قراردینا، معصوم لوگوں کو دھوکہ اور خیانت سے قتل کرنا ، اللہ کے راستے سے روکنا ، اسلام کو برا کرنا ، اور اللہ کے دشمنوں کی مدد کرنا جیسے افعال پر آمادہ کرتی ہیں اور یقینا ان لوگوں کو مسلمان ممالک میں کسی بھی عہد وپیمان کی پاسداری کی فکر نہیں ہے ،پس یہ لوگ جس ملک میں بھی داخل ہوئے ہیں اس کو تباہ و برباد کردیا، اور ہر فیصلہ امت کے لئے برا سوچا، پس ان لوگوں نے نہ تو اسلام کی مدد کی اور نہ ہی کفر وشرک کو توڑا ، بلکہپ یہ لوگ جو دوسروں کو کافر قراردیتے ہیں اور غلو کا شکار ہیں محض دین کے دشمنوں کے لئے ایک سواری کی مانند ہیں ان کے مکر و فریب میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں ، مسلمان ممالک کو نقصان پہنچانے اور انہیں حاصل کرنے میں یہ لوگ ان کے تیروں کو صحیح رخ پر لاتے ہیں ، مسلمان ممالک کی طرف اور بالخصوص مملکت سعودیہ عربیہ اور حرمین شریفین کی طرف۔ پس ان لوگوں نے ان شہروں پر اپنے مکمل مکروفریب ، گالم گلوچ ، ان کی مذمت اور ان کی تاک میں لگاتے ہوئے ہمارے بعض نوجوانوں کے ہدف بنایا اور انہیں جھوٹے نعروں اور گمراہ کن دعووں کے ذریعے دھوکہ میں ڈال کر اپنے ہی ملک کے بیٹوں کو قتل کرنے اور انہیں جھنجھوڑنے پر آمادہ کیا ، اور وہ خود ہی ناکام و نامراد ہوگئے ، یہ کون سا جہاد ہے ؟ جس کو صرف مسلمان ممالک کے لئے سمجھا جانے لگا تاکہ وہ فساد و تباہی ، لوگوں کو ذبح وقتل کرنے اور اذیت اورمختلف جرائم کا ذریعہ ان پر مسلط ہوسکیں ۔ اس سب کے ساتھ آخری واقعہ وہ ہے جو ان گمراہ گمراہ لوگوں کی ایک چھوٹی جماعت نے مملکت کے شمالی چھوٹے حصے ’’عر عر‘‘ کو نشانہ بنایا ، انہوں نے وہاں کے امن پسند نمائندوں پر سرکشی کی اور ان کے درمیان خود کو بم کے ذریعہ اڑادیا۔
اے ایمان والو! یہ مایوس کن اور عبث اعمال کا ارتکاب دوسروں کو کافر قرار دینے والے اور غلو کا شکار لوگوں کے راستے کی رسوائی کو ثابت کرتا ہے ، اور اس کے ساتھ ان کی فکر کے راستوں کو بیان کرتا ہے ، اور ہم سب اس چیز کے محتاج ہیں کہ ہم خود کو، اپنے بیٹوں کواور اپنے تمام لوگوں کو ان کی گمراہی اورانحراف سے بچائیں اس نعمت کی حفاظت و قدر کے لئے ۔اور ہر اس راستے کو بند کریں جو ہماری باتوں میں تفریق پیدا کرے اور ہمارے امن کو نقصان پہنچائے ، اور بادشاہ ورعیت کے درمیان نئے فرقے کو ایجاد کرے ۔ پس جب تمام ایمان والے ایک کلمہ ٔ حق پر جمع ہو جائیں گے اور ان کے دل بھی راہ راست پر باہم مل جائیں گے تو اس چیز سے بہت زیادہ اچھائیاں متحقق ہوں گی اور اسی کے ذریعے سے یہ گمراہ کن جماعتیں اور یہ منحرفانہ کوششیں ناکام ہوں گی۔
میں عظیم رب سے جو عرش کریم کا مالک ہے اس کی بارگاہ میں ایک گداگر کی طرح عرض کرتا ہوں کہ وہ ان کے مکر واپس انہیں کے گردنوں میں لوٹا دے اور ہمارے ممالک کو ان کے شر بچائے ، اور ہمارے اقوال کو حق اور سیدھی راہ پر جمع کردے ، اور ہمارے امن کو دوام بخشے اور ہمارے ممالک کو ہر برائی سے محفوظ رکھے ، (آ مین!) یقینا وہ اس پر قادر ہے ، میں یہ بات کہتاہوں اور عظمتوں والے اللہ سے اپنے اور آپ سب کے لئے مغفرت کا طلبگار ہوں ، پس آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں یقینا وہ بہت زیادہ معاف کرنے والابہت زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔
-دوسرا خطبہ-
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، ہم اسی کی حمد و ثنا ء بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ، اور ہم اللہ پاک سے اپنے نفس کے شرور اور اپنے اعمال کی برائیوں سے پناہ مانگتے ہیں ، جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو گمراہ کردے تو آ پ اس کے لئے کوئی راہ دکھانے والا اور کوئی دوست نہیں پائیں گے، ٍاور میں اس بات ک ی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں ، اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔
اما بعد۔۔۔
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو ، اور یہ بات خوب جان لو کہ مخلوق کے لئے اللہ کی کتاب اور ارسول اللہ ﷺ کی سنت کے علاوہ کوئی نجات نہیں ہے ، کیونکہ سب سے سچا کلام اللہ کا کلام ہے اور سب سے اچھی سیرت محمدِ مصطفی ﷺکی سیرت ہے ۔ یقینا یہ قرآن سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے ، اور یقینا ہر صاحبِ استطاعت اور قدرت رکھنے والے شخص کے لئے اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرنا خود اپنے فہم سے ممکن ہے ۔ اور اگر اس میں یہ استطاعت نہیں ہے تو وہ نہ جاننے والوں کو جاننے والوں (علم رکھنے والوں ) کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں : (ترجمہ) ’’اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو وہ اس کو پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ اس خبر میں اللہ کے رسول اور جو ان میں سے امراء ہیں ان سے رجوع کرتے ہیں تو جو ان میں سے مسائل اچھی طرح جاننے والے ہیں وہ اس خبرکو جا ن لیتے‘‘ ، اور ان لوگوں سے مراد علماء ہیں جو اللہ کے کلام کو سمجھتے ہیں ، اس کے کلام کے مقاصد کو حاصل کرتے ہیں اور پھر وہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور لوگوں کی سیدھی راہ اور صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی کرتے ہیں ۔
یقینا سب سے بڑی بات جس کے ذریعے سے غلو کرنے والے اور دوسروں کو کافر قرار دینے والے لوگوں کا مقصد متحقق ہوتا ہے ، اور جس کے ذریعے وہ اپنے باطل عقائد کو رواج دیتے ہیں ، وہ مثبت اہلِ علم پر طعن و تشنیع ، ان کی تنقیص بیان کرنا ، اور ان سے لوگوں کو باز رکھنا تا کہ ان کے لئے ماحول صاف ہوجائے اور لوگ انہیں اپنا سردار بنالیں اور اس طرح خود بھی گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں ۔
اے ایمان والو! ان لوگوں کا یہ طریقہ و مسلک مشہور ومعروف ہے ۔ ترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ کو جب حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے خوارج کی طرف ان سے بات چیت کرنے بھیجا تو حضرت ابن عباس ؓ نے ان پر حجت تام کردی اور دلائل قائم کردئیے، وہ لوگ چھ ہزار تھے ان میں سے ایک ہزار واپس آگئے ، پس جب ان پر حق واضح ہوگیا تو ان میں سے بعض بعض سے کہنے لگے : ’’ قریش سے لڑائی مت کرو ‘‘ اس سے ان کی مراد حضرت ابن عباس ؓ تھے، کیونکہ اللہ جلّ جلالہ کا ارشاد پاک ہے : (ترجمہ) ’’ یہ تو لوگ جھگڑا کرنے والے ہیں‘‘ پس ابن عباس ؓ نے ان لوگوں کو بھی وہی منزلت اور مقام دیا جو سردارانِ مکہ جیسے ابوجہل ، ابو لہب اور ابی بن خلف وغیرہ کو دیا گیا۔
اور اسی طرح ایک روایت میں ہے جس کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں یزید الفقیر کے واسطے سے نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ خوارج کی ایک رائے مجھے پسند آگئی یعنی خوارج کی باتوں میں سے ایک بات میرے دل کو لگ گئی اور مجھے پسند آگئی ، اور پھر ہمارا گزر مدینہ منورہ سے ہوا تو ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ جو مسجد نبوی کے ستونوں میں سے کسی ستون کے پاس بیٹھ کر بیان فرما رہے تھے ، دورانِ گفتگو انہوں نے کوئی ایسی بات کردی جو لوگوں کے علم میں نہ تھی تو لوگ کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول کے ساتھی ! یہ آپ نے ہم سے کیا بات بیان کردی؟ تو حضرت جابر ؓ نے سنت رسول اور کتاب اللہ کے ذریعے سے حق بات واضح کردی ، پس جب وہ لوگ حضرت جابرؓ کی مجلس سے واپس لوٹے تو کہنے لگے کہ تمہارے لئے ہلاکت ہو کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ شیخ اللہ کے رسول پر جھوٹ بول رہا تھا؟ پھرا س کے بعد کہنے لگے کہ اللہ کی قسم حضرت جابر کے بیان و وعظ سے اللہ نے ہم سب کو بچا لیا اور کوئی بھی شخص دین سے نہ نکلا سوائے ایک شخص کے جس کی بصیرت اندھی ہوگئی اور وہ اس گمراہ کن مسلک اور راستہ پر چل پڑا۔
اے ایمان والو! یقینا اہلِ علم کی طرف رجوع کرنا بہت بڑی غنیمت ہے ، میں تمہیں ایک قصہ سناتا ہوں جو فتنۂ ابن اشعث اور اس تحت پیش آیا، یہ فتنہ حجاج کے زمانہ میں پیش آیا، حجاج کے ظلم اور پکڑ دھکڑ کے خلاف ابن اشعث اور بعض اہلِ علم نے بھی ان کی مدد کی تو حضرت حسن بصری ؒ کو اللہ رب العزت نے توفیق عطا فرمائی اور ان کی حفاظت بھی فرمائی ، انہوں نے ان لوگوں کو فرمایا:’’اللہ کے اس عقاب کو تلوار کے ذریعہ سے دفع نہ کروبلکہ تضرع و سکینت کو لازم پکڑ لو‘‘ اور پھر کیا ہوا؟ جن لوگوں نے ابن اشعث کے ساتھ چلنا تھا وہ چلے گئے یہاں تک کہ اہلِ شام اور ان لوگوں کے درمیان جنگ ہوئی اور ان میں سے بہت سے قتل اور بہت سے مجروح ہوئے ، تو ا س فتنہ میں شامل اور ابن اشعث کا ساتھی جس نے سب کا کچھ دیکھ لیا تھا کہنے لگا : کہ میں فقہائے کرام اور بہت سے لوگوں سے ملا ہوں مگر حسن بصری ؒ جیسا مجھے کوئی نہ ملا ، پھر کہنے لگا کاش ! ہم ان کی اطاعت کرلیتے ، کاش! ہم نہ نکلنے اور تلوار نہ اٹھانے میں ان کی اطاعت کرلیتے ، کاش! ہم مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے میں ان کی اطاعت کرلیتے۔ گویا کہ وہ حجاج کے ساتھ جنگ کرنے پر نادم تھا ۔
اے ایمان والو! امن کو قائم کرنا سب کی ذمہ داری ہے ، اللہ رب العزت کا ارشاد پاک ہے : (ترجمہ) ’’ اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔ پس امن کی نعمت ، اس کے شکر اور حفاظت کے لئے اور ہر اس چیز کو روکنے کے لئے جو اس کو ختم کرنا چاہے یا اس کو خراب کرنا چاہے ہم سب ذمہ دار ہیں ، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ اور پہلے درجہ میں وہ امن کے سپاہی ہیں جو ہمارے امن کے محافظ ہیں ، ان کا ایک بہت بڑا واجب ہم پریہ ہے کہ ہم ان کی تعریف اور ان کے لئے دعا کریں ، اور تمام امت پر ان کا حق ان کی مدد و نصرت کے لئے یہی ہے کہ ان کے لئے دعا کی جائے اور جس قدر ممکن ہو مدد بھی کی جائے ، کیونکہ ہم سب ایک کشتی کے سوار ہیں اگر وہ کشتی غرق ہوگئی تو ہم سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔
اے اللہ ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن عطا فرما ، اور ہمارے نگرانوں اور سربراہان کی اصلاح فرما، اور ہم پر وہ لوگ نگران بنا جو تجھ سے ڈریں اور جو تیری خوشنودی کی اتباع کریں ۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے ہدایت ، تقوی ، عفت ، سیدھی راہ اور غنی کے طلبگار ہیں ۔
اے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہم پر اپنے فضل و احسان کا دوام عطا فرما۔
اے اللہ ! ہمار ا ان افعال پر مواخذہ نہ فرما جن کاسبب ہماری بیوقوفیاں بنے ۔
اے جلیل القدر اللہ ! ہماری باتوں کو حق پر جمع فرما۔
اے اللہ ! ہمارے سربراہان کو اپنی رضا اور پسند والے اعمال کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ ! ان کے کلمہ کو کلمۂ حق اور ہدایت والا بنا۔
اے تمام جہانوں کے پروردگار! ان سب کو ان کے اقوال و افعال اور آراء میں درستگی عطاء فرما۔
اے اللہ ! ہمارے ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز کو شفاء عطا فرما۔
اے اللہ ! انہیں شفائے عاجلہ عطاء فرمااور انہیں اور ان کے بھائیوں پر بررکتیں نازل فرما۔
اے تمام جہانوں کے پالنہار! جن امور میں تیرے بندوں اور شہروں کی بھلائی ہے ان امور میں ان کی مدد فرما۔
اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر اپنی رحمت کی چادر نہ ڈالی تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔
اے اللہ ! ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرماجو ہم سے پہلے ایمان پر چلے گئے ۔
اے اللہ ! اہلِ ایمان کے بارے میں ہمارے دلوں سے کینہ و بغض نکال دے ۔ یقینا تو روؤف ورحیم ہے ۔
اے اللہ ! حضر ت محمد ﷺپر اپنی رحمت نازل فرما اور ان کی اولاد پر بھی جس طرح تونے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر نازل فرمائی ، یقینا تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے ۔ آمین ثم آمین.
خطبة يا ليتنا أطعناه