×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نکاح / مشت زنی کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:5306
- Aa +

بعض علماء روزے کی حالت میں مشت زنی کرنے پر روزہ توڑنے کا حکم لگاتے ہیں اور ایک حدیث کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ’’اس نے میرے لئے اپنی شہوت کو چھوڑا‘‘۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تو ساری شہوات کو حرام نہیں کیا جیسا کہ شیخ البانیؒ نے فرمایا ورنہ تو ہمیں پھر خوشبو سونگھنے اور بیوی کو بوسہ دینے اور اس کے ساتھ مباشرت کرے بغیر منی خارج ہوئے ان شہوات پر روزہ توڑنے کا حکم لگاتا ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے تو محدود شہوات روزہ دار پر حرام کی ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ مشت زنی ان محدود شہوات میں سے ہے ۔ فرض کریں اگر اس کو ہم حرام بھی مان لیں تو ہر حرام چیز سے تو روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ ازراہِ کرم آپ بتائیں کہ علماء کس چیز کو دلیل پکڑتے ہیں کہ مشت زنی سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اللہ آپ کا بھلا کرے جو لوگ مشت زنی کو حرام سمجھتے ہیں و ہ اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں (ترجمہ) ’’ اور وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیوی کے ساتھ‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے بیوی اور لونڈی کے علاوہ ہر چیز کی نفی کردی اور اس سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ ان دونوں کے علاوہ کسی بھی چیز سے لطف اٹھانا یہاں تک کہ اپنی ذات سے بھی حرام ہے ۔ لیکن شیطان ایک عجیب بات میرے دل میں ڈال دی ہے جس سے ان کے استدلا ل کو باطل کررہا ہے لیکن میں ا سکے جواز کو نہیں طلب کررہا۔ کیونکہ وہ علماء ہیں اور ان کے سامنے میں ایک جاہل عامی بندہ ہوں ، اچھا تو یہ ہے کہ وہ حفط الفرج کے مسئلہ میں عود کریں کہ اس کی حفاظت تو یہ ہے کہ وہ اس کو لمس بھی نہ کرے اور دیکھے بھی نہ سوائے بیوی اور لونڈی کے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ پھر تو دیکھنا بھی فرج کو حرام ہے جو پہلے گزرا ہے اس پر قیاس کرتے ہوئے جس کو اب ہم نے جائز قراردیا ہے کیونکہ اس میں کوئی نص قطعی نہیں ہے جو اس کو حرام کرے تو اب یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ استمناء میں بھی کوئی نص قطعی نہیں ہے جواس کو جائزقرار دے ۔ اور بعض صحابہ نے اس کی اجازت بھی دی ہے باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔ آیت جس چیز کو بیان کررہی ہے وہ دو شخصوں کے درمیان جنسی تعلق ہے اور وہ صرف اس کو منع کرسکتا ہے مگر بیوی اور لونڈی کو نہیں کرسکتا۔ پس اگر کوئی بندہ اپنی ذات سے شہوت پوری کرتا ہے تو مجھے اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا۔ یہ وہ خیالات ہیں جو شیطان نے ذہن میں ڈالے ہیں ، میں نے آپ کے سامنے اپنی بات پیش کردی ہوسکے تو آپ ہمارے لئے حق کو واضح کردیں اور ہمیں سیدھی راہ دکھادیں ! اللہ آ پ کو جزائے خیر دے

حكم الاستمناء

جواب

حامداََ ومصلیاََ۔۔۔

امابعد۔۔۔

ابوہریرہؓ کی جو حدیث آپ نے پیش کی ہے قائلین تطفیرصوم بالاستمناء کی عمدہ دلیل ہے اور یہ قول اکثر علماء فقہاء اور محدثین کا بھی ہے ۔ پس آپ نے جو اعتراض ذکر کیاہے کہ شہوت اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتاہے اور اس میں تحدید لازمی ہے اور ہمارے پاس جماع کے علاوہ کوئی اور نص بھی وارد نہیں ہے ، اس کے علاوہ جو کچھ لکھا ہے اس کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شہوت ہے اور جو اس کے ساتھ متصل چیزیں ہیں جن کی وجہ سے روزہ دار کو ان سے بھی منع کیا جاتا ہے ۔ اور اس میں خوشبو کا سونگھنا داخل نہیں ہے اور اس سے کوئی منع نہیں ہے اور استمناء کا شہوت کے اندر داخل ہونا ہے تو یہ تب ظاہر ہو اجب ہمیں پتہ چلا کہ جماع سے مقصود شہوت ہے اور شریعت نے تو وہ مجامع جو مجر د ایلاج کرے اور انزال نہ کرے روزہ توڑنے کا حکم لگایا ہے اور جب اس نے قضائے شہوت کرلی ہے چاہے وہ مباشرت سے ہو یا استمناء بالید سے تو أولیٰ یہ ہے کہ اس پر تفطیر کا حکم لگایا جائے ۔ لیکن یہ اس کے لئے ہے جو آپکے قول کو سمجھے جو حضرت عمر ؓ سے ارشاد فرمایا تھا جب انہوں نے روزہ دار کے بوسہ کے بارے میں پوچھا تھا تو آپنے ارشاد فرمایا :’’ آپ کی کیا رائے ہے کہ آپ روزے سے ہو او رپانی سے کلی کرو؟‘‘ تو عمر ؓ نے عرض کیا کہ کوئی بات نہیں تو آپنے ارشاد فرمایا کہ ہاں لے سکتا ہے‘‘۔ تو پھر یہ کون سی فقہ ہے جو صرف تقبیل اور انزال منی بالاستمناء کو برا بر کرے اور یہ روزہ دار کو کوئی نقصان بھی نہ دے ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مشت زنی کرنے والے نے تو اس شخص سے زیادہ لطف اٹھایا جو بغیر انزال کے ایلاج کرے ؟اور یہی تو قضائے شہوت کا مقصدہے ۔

اگر ہم صرف جماع سے روزہ توڑنے کے حکم پر اکتفاء کریں تو پھر تو لواطت سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتااور اس میں کوئی نقص بھی وارد نہیں ہے۔ اور یہ قول قرآن وحدیث سے بہت دور ہے ، اور حنفیہ ، حنابلہ اور شوافع کے بعض علما ء نے استمناء کو حرام قراردیا ہے ۔ اور اکثر علماء کے نزدیک مکروہ ہے حرام نہیں ہے ۔ اور اکثر اس کی اجازت بہت سی مصلحتوں کی بناء پر نہیں دیتے، اور صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ انہوں نے ضرورت کی وجہ سے اس کی اجازت دی ہے ۔ جیسے زنا میں پڑنے کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے اور جیسے اگر اس کو حاجت ہو اپنی شہوت پوری کرنے کی اور کوئی دوسرا راستہ بھی نہ ہو تو تسکین کے لئے کرے ۔اور صاحبِ اضواء البیان نے اس پر روشنی ڈالی ہے اپنی تفسیر میں سورۂ مؤمنون میں وہ فرماتے ہیں اس آیت کے ضمن میں (ترجمہ) ’’جو اس کے علاوہ راستہ تلاش کرتے ہیں وہ حد سے گزرنے والے ہیں ‘‘۔اور اسی آیت سے استمناء کو ثابت کیا ہے اور فرمایاکہ اس آیت میں عموم ہے ا س میں کوئی شک نہیں ۔

اور آ پ کے سوا ل میں جو میرے سامنے ظاہر ہو اہے وہ بات بھی قوی ہے کیونکہ آیت میں جو چیز ظاہر ہوئی ہے وہ اس کی مثال نہیں ہے تبھی تو علماء سلف نے اس کو دلیل نہیں بنایا جو اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں