×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / العقيدة / گناہ کے فعل پر تقدیر کو دلیل و حجت بنانا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3486
- Aa +

محترم جناب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی پیدائش سے پچاس ہزار پہلے مخلوق کا رزق لکھ دیا تھا اور جب کسی عورت کو حمل ٹھہرتا ہے تواس پیداہونے والے بچے کا رزق ، اس کی موت ، اس کا عمل اور اس کا نیک بخت و بدبخت ہونا لکھا جاچکا ہوتا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ۔۔۔ العیاذباللہ۔۔۔کہ اگر میں شراب پینے کے لئے جاؤں تو گویا کہ میرا یہ فعل اللہ تعالیٰ نے لکھا ہواتھا اور میر ا یہ فعل کرنا میرے لئے مقدر ہوچکا تھا؟

الاحتجاج بالقدر علی فعل المعاصی

جواب

حامداََ ومصلیاََ۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امابعد۔۔۔

یہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے ۔ تقدیر کاموضوع حقیقت میں ایک بہت بڑا موضوع ہے جس کا ہمارے لئے ایک بالتعبیر جواب دینا ناممکن ہے مگر سب سے پہلے تو میں اپنے بھائی کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بہت زیادہ اپنے ذہن کو تقدیر کے مسئلے میں مکلف نہ بنائے کیونکہ تقدیر اللہ کا اپنی مخلوق میں ایک راز ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے نہ تو اپنے کسی مقرب فرشتہ کو اور نہ ہی کسی بھیجے گئے رسول کو مطلع کیا ہے اور یہ ایسے معاملات سے تعلق رکھتا ہے جن کی کیفیات کو پانے میں عقل عاجز ہے جیسا کہ باقی تمام صفات جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لیکن ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اللہ تعالیٰ کے اس قول کے تحت ہے :(ترجمہ) ’’اس جیسی کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے اور ہم اس یہ پکا ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ) ’’ اور تمہارا رب ذرا بھی اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ‘‘ اور صحیح مسلم میں حضرت ابوذرؓ روایت نقل کرتے ہیں کہ آپنے ارشاد فرمایا:’’اللہ پاک فرماتے ہیں : اے میرے بندو! یقینا میں نے اپنے اوپر ظلم حرام قرار دیا ہے اور تمہارے درمیاں بھی اس کو حرام قراردیاہے‘‘۔

پس ایک مومن کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ اپنے دل میں اس بات کو پوری طرح ڈال دے کہ اس کا رب فیصلہ کرنے والا اور عادل ہے نہ تو اس کی قدر میں ذرہ برابر ظلم ہے اور نہ ہی اس کے شرعی احکام میں ذرہ برابر ظلم ہے ۔

پھر اگر اس کے بعد اس کے دل میں کوئی تنگی یا اشکال تقدیر کے بارے میں پیدا ہوتو پھر اسے پوچھ لینا چاہئے ۔ عبداللہ ابن فیروز دیلمی فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ابی بن کعب سے ہوئی تو میں نے کہا کہ ابوالمنذر ! میرے دل میں اس تقدیر کے بارے میں کوئی بات پیش آئی ہے پس آپ مجھے کوئی ایسی بات بتا ئیں جس کی وجہ سے وہ میرے دل سے نکل جائے ، تو انہوں نے فرمایا:’’اگر اللہ پاک آسمان والوں اور زمیں والوں کو عذاب دے تو وہ ان کو اس حال میں عذاب دینے والا ہوگا کہ وہ ان پر ذرہ بھی ظلم کرنے والا نہیں ہوگا اور اگر ان پر رحمت فرمائے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے اچھی ہوگی۔اور اگرتم احد پہاڑ کے برابر بھی اللہ کے راستے میں سونا خرچ کردو تو اللہ پاک تم سے اس وقت تک قبول نہیں فرمائیں گے جب تک تم تقدیر پر ایمان نہ لاؤ۔ اور تم یہ بات جان لو کہ جو امر تمہیں پیش آیا ہے وہ تم سے چھوٹنے والا نہ تھااور جو تم سے چھوٹ گا وہ تمہیں پیش آنے والا نہ تھا اور اگر تم اس کے علاوہ کسی اور عقیدہ پر دنیا سے گئے تو ت، جہنم میں داخل ہوجاؤ گے ۔کہتے ہیں کہ ان کے بعد میں حضرت حذیفہ ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی ایسا ہی فرمایا، اور عبداللہ ابن مسعودؓ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی ایسا فرمایااور زیدابن ثابت ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی ایسا ہی اللہ کے رسولسے نقل فرمایا‘‘۔ رواہ احمدو ابوداؤد وابن ماجہ و صححہ ابن حبان

اور تقدیر کے ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اس چیز پر ایمان رکھے ہر اس کے وجود سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی اور اللہ پاک نے سب کچھ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لکھ دیاتھا، پھرا س نے چاہا اور پیدا کردیا ، یہ چار مراتب ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے تاکہ ایک مسلمان کا ایمان بالقدر متحقق ہوسکے۔

ان سب کے بعد ہم اس سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ کیا گناہ پر تقدیر کو حجت بنانا ٹھیک ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات نہ تو شرعی طور پر قابل قبول ہے اور نہ ہی عقلی طور پر، اور اس با ت کی دلیل یہ ہے کہ کوئی بندہ تمہارے پاس آئے اورتمہارے مال میں سے کچھ لے لے یا پھر تمہیں مارے پھر وہ جب فارغ ہوجائے تو یہ کہے کہ مجھے معاف کرناکہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے یہی لکھا تھا، تو کیا تم اس کی یہ بات مانوگے ؟ یا پھر تمہیں یہ لگتا ہے کہ یہ دلیل اس پر دو عقاب لانے والی ہے کیونکہ اس نے ایسی بات کو دلیل بنایا جو دلیل بنانے کے لائق نہ تھی ۔ اور اسی طرح ان سب افعال میں یہی حکم ہوگا جو اللہ پاک کے حقوق سے متعلق ہیں کیونکہ اللہ پاک کے حق کی حفاظت کرنا واجب ہے اور عیوب اور برائیوں پر تقدیر کو حجت بنانا جائز نہیں ہے اس پر علمائے اسلام کا اتفاق و اجماع ہے ۔

اور یقینا مصیبتوں پر تقدیر کو دلیل بنانا جائزہے یعنی اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو کہو کہ یہ اللہ تعالیٰ نے میری تقدیر میں لکھا تھا اور وہ جو چاہتاہے کرتا ہے ۔ اور میں اپنے بھائی کو یہ نصیحت کرتاہوں اور اس موضوع میں زیادہ غوروخوض کرنے سے خبردار کرتا ہوں کیونکہ اس موضوع کی کوئی حد نہیں جو ختم ہوجائے ۔اور اس بات پر اعتقاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہم بھی جو کرنا چاہتے ہیں وہ اللہ کی مشیت اور ارادہ سے نکلنے والا نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ بلند اور ہر چیز پر غالب ہے جیسا کہ ارشادتعالیٰ ہے :(ترجمہ)’’اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہ جو اللہ چاہتاہے ‘‘۔ لہٰذا ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو اعتقاد اور عمل کی سلامتی عطا فرمائے ! آمین

آپ کا بھائی

أ.د.خالد المصلح

5 / 3 / 1430هـ

 


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں