حامداََو مصلیاََ ۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امابعد۔۔۔
آپ کے سوال کے جواب میں ہم اللہ کی توفیق سے یہ کہتے ہیں کہ اہلِ علم کا ا س میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کوئی حائضہ عورت کو طہارت حاصل ہو جائے اور نماز کا وقت ابھی نہ نکلا ہو تو اس وقت کی نماز اس پر لازم ہے کہ ادا کرے اس وقت کی نماز جس میں اسے طہارت حاصل ہوئی ہے ۔ہاں اس میں اختلاف ہے کہ کتنا وقت پانے پر نماز کی قضاء واجب ہوگی؟ حنابلہ اور شوافع کے نزدیک اگر تکبیرۃ الاحرام کے بقدر بھی وقت پالے تو نماز کی قضاء واجب ہوجائے گی ۔ اور مالکیہ کے ہاں ایک رکعت کی مقدارکے وقت اگر پائے تو قضاء واجب ہوگی ۔ اور اس نماز کی قضاء کرنا جو جمع ہوسکتی ہو تو اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ اگر عصر کے وقت طہارت حاصل کرلے تو کیا ظہر کی نماز اس پر لازم ہے کہ قضاء کرے ؟ اس میں اہلِ علم کے دو اقوال ہیں : تابعین اور ان کے بعد کے مذاہب کے فقہاء اور جمہور علماء کی رائے ہے کہ عصر اور ظہر دونوں کو پڑھنا واجب ہے ۔ اور حضرت حسن بصریؒ کا قول ہے کہ صرف وہی نماز واجب ہوگی جس وقت میں طہارت حاصل ہوتی ہے اور یہی قول سفیان ثوریؒ کا بھی ہے اور امام ابوحنیفہ ؒ کا بھی یہی قول ہے اور یہی قول صحت کے اعتبار سے مضبوط ہے ۔اس لئے کہ پہلا وقت تو حالتِ عذر میں گزرگیا پس وہ واجب ہی نہیں ہوئی لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ دونوں نمازیں پڑھی جائیں جب آخر ی وقت میں طہارت حاصل ہوئی ہو۔ یہی مذہب صحابہ کی ایک جماعت کا بھی ہے جن میں عبدالرحمان بن عوفؓ اور ابن عباسؓ بھی شامل ہیں ۔
واللہ أعلم۔
آپ کا بھائی
أ.د.خالد المصلح
19/9/1427هـ