×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / العقيدة / ’’ اللہ نہ کرے‘‘ ہمارا یہ کہنا اور اس کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2446
- Aa +

کسی شخص نے ایک ایسی چیز (جو اس کو پسند نہ تھی) کے بارے میں یہ کہا ’’اللہ نہ کرے اگر ایسا ہوا تو میں۔۔۔‘‘ کہا کیا اس کا یہ کہنا شریعت کے خلاف ہے ؟

حكم قولنا: لا قدر الله

جواب

اس جیسی دعا میں نے نہ حدیث کی کتابوں میں دیکھی ہے اور نہ ہی سلف صالحین اور ائمہ کرام کی کتابوں میں دیکھی ہے ۔ میری رائے ہے کہ اس طرح دعا کے ذریعے سائل اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کرتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسا امر نہ پیش آئے جسے وہ نہ پسند کرتا ہو۔ہاں اس جیسی اور دعائیں کتاب اللہ اور حدیث میں وارد ہیں جیسا کہ فرمانِ الہٰی ہے :(ترجمہ)  ’’اے ہمارے رب ہمیں وہ عطا کر جو آپ نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے وعدہ کیا ہے اور ہمیں قیامت والے دن رسوانہ کربیشک آپ وعدہ خلافی نہیں کرتے ‘‘۔ (آل عمران : ۱۹۴)اور حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی دعا بھی ہے :(ترجمہ)  ’’اور مجھے فضیلت والے دن رسوا نہ کر‘‘ (الشعراء:۸۷) اور جو سورۂ بقرہ کے آخرمیں آیا ہے : (ترجمہ)  ’’اے ہمارے رب ہماری خطاؤں اور بھول کی وجہ سے ہماری پکڑ نہ فرما‘‘۔ البقرہ:۲۸۶

اسی میں سے آپکی وہ دعا بھی ہے جوآپجنازے کے وقت پڑھتے تھے ۔(ترجمہ)  ’’اے ہمارے رب !  ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ فرما اور اس کے بعد ہمیں گمراہ ہونے سے بچا‘‘۔اور یہ حدیث ترمذی میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے اس طرح کی دعا ئیں اور بھی ملتی ہیں اور نہ اس میں کوئی حرج ہے کیونکہ یہ ادعیہ مشروعہ کے حکم میں ہیں ۔ لیکن ان الفا ظ کے ساتھ دعا کرنا کہ ’’اللہ نہ کرے ‘‘ اس میں اور جو ہم نے ذکر کیا ہے دونوں میں تضاد ہے اور وہ یوں کہ ایک ہے اللہ سے سوال کرنا کہ یا اللہ ایسا کام نہ ہو ۔ نہ کہ یہ سوال کرنا کہ اللہ ایسا نہ کرے ۔ اور دونوں میں بہت فرق ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرنا کہ ’’یہ کام نہ ہو‘‘ اس کی کوئی دلیل یا شاہد میر ے علم میں نہیں ۔ جیسا کہ اس طرح سوال کرنا حدیث میں اس کی عدم مشروعیت وارد ہوئی ہے اس لئے کہ یہ بے فائدہ ہے کیونکہ جب ام حبیبہ ؓ نے یہ کہا:’’ اے اللہ !  مجھے اپنے شوہر (رسول اللہ ) اور اپنے باپ (ابوسفیان) اور اپنے بھائی (معاویہ) سے مستفید کرتے رہنا۔ آپنے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ: تم نے اللہ تعالیٰ سے مقررہ اوقات ، معدودہ ایام اور تقسیم شدہ ارزاق کے بارے میں سوال کیا اللہ تعالیٰ ہرگز کسی چیز کو اس سے پہلے  اس میں جلدی نہیں کرتے اور نہ ہی اس میں تاخیر کرتے ہیں ‘‘۔

تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:’’تم نے اللہ سے وہ کچھ مانگا جس کا فیصلہ ہوچکا ہے اور رزق تقسیم ہوچکا ہے اللہ کسی بھی چیز کو اس کے وقت سے پہلے یا مؤخر نہیں کرتے‘‘۔ (مسلم:۲۶۶۳) اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس قسم کی دعا کو ترک کرنا چاہئے اور نہ اللہ سے معین ضرر کوے دفع ہونے کی دعا کی جائے ۔ واللہ أعلم۔

آپ کا بھائی

خالد المصلح


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں