×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / العقيدة / ’’مدد یا رسول اللہ ‘‘ کہنے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:4602
- Aa +

کیا کسی مسلمان کے لئے یہ کہنا جائز ہے ’’مدد یا رسول اللہ! مدد یا شیخ فلاں ‘‘؟ اگر ایسا کہنا جائز ہے تو پھر صحت جواز کی کیا دلیل ہے ؟ اور کیا اس فعل کا سلف صالح سے ثابت ہونے پر کوئی دلیل موجود ہے ؟

حکم قول المدد یا رسول اللہ

جواب

اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اللہ کے غیر سے دعا مانگنا یا پھر کسی ایسی چیز کا سوال کرنا (جس پر صرف اللہ کی ذات قادرہو) اللہ کی ذات کا انکار اورکفر ہے ۔ اللہ تعالی ٰ کا ارشاد ہے :(ترجمہ) ’’مساجد تواللہ کی ہیں لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو!‘‘ (جن:۱۸) دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسے من گھڑت معبود کو نہ پکارنا جونہ تمہیں کوئی فائدہ دے نہ کوئی نقصان پھر اگر تم ایسا کربیٹھے تو تمہارا شمار بھی ظالموں میں ہوگا‘‘ (یونس:۱۰۶) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:(ترجمہ) ’’اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑکر ان من گھڑت دیوتاؤں کو پکارے جو قیامت کے دن تک ان کی پکار کا جواب نہیں سکتے اور جن کو ان کی پکار کی خبر تک نہیں ‘‘۔ (احقاف:۵)

اس میں کوئی شک نہیں کہ جس نے نبیمدد مانگی یا مخلوق میں سے کسی اور شخص سے تو اس نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا (جس سے مدد مانگی) اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے اوران کو کافر کہا ۔ چنانچہ فرمایا:(ترجمہ)’’وہی ہے جس سے دعا کرنا برحق ہے اور ا س کوچھوڑ کر یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دیتے البتہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر یہ چاہے کہ پانی خود ا س کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ کبھی بھی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا اور (بتوں ) سے کافروں کے دعا کرنے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بھٹکتی پھرتی رہے‘‘۔ (الرعد:۱۴) اور اللہ تعالیٰ نے کسی اور سے دعا مانگنے کو باطل قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ) ’’یہ اس لئے کہ اللہ ہی برحق ہے اور یہ لوگ اسے چھوڑ کر جن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور اللہ ہی وہ ہے جس کی شان بھی اونچی ہے اور رتبہ بھی بڑاہے ‘‘۔(الحج:۶۲) یہ حکم دونوں کوشامل ہے چاہے وہ رسول اللہ سے مدد مانگے یا کسی اور سے ۔ اور جو شخص یا رسول اللہ مدد یا اعرابی مدد کہتا ہے اور مخلوق سے قوت میں زیادتی یا کسی قسم کی مدد چاہتا ہے تو ایسی دعا صرف اور صرف اللہ سے مانگی جاتی ہے ۔جیسا کہ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :(ترجمہ) ’’اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ‘‘(الفاتحہ:۵) جہاں تک مخلوق کی بات ہے تو ان سے اس چیز کا طلب کیا جاتا ہے جس پر وہ قادر ہو وہ بھی تب جب وہ حاضر (زندہ)ہو۔ مردہ اور غائب لوگوں سے مدد نہیں مانگی جاتی ۔ ہاں آپ نے سلف صالحین اور ان کے فعل کے بار ے میں سوال کیا ہے تو ان کے بارے میں یہی مشہور ہے کہ انہوں نے ایسا کوئی فعل نہیں کیا ابن تیمیہؒ مجموع الفتاویٰ میں فرماتے ہیں:’’مردہ اور غائبین سے دعا مانگنا یہ منقول نہیں ہے نہ انبیاء میں سے کسی نے یہ فعل کیا اور نہ ہی سلف صالحین میں سے کسی سے یہ ثابت ہے بلکہ بعض متاخرین سے یہ منقول ہے جن کا اہلِ علم اور مجتہدین سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ واللہ أعلم۔

آپ کا بھائی

خالد بن عبد الله المصلح

16/02/1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں