×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / طھارت / خفین پر مسح کرنے کے احکام اورشرائط کی وضاحت

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:4793
- Aa +

خفین پر مسح کرنے کے احکام اور شرائط کو آپ ہمارے لئے واضح کریں ۔

نريد توضيح حول مسألة المسح على الخفين من حيث شروطها وأحكامها

جواب

حامداََ ومصلیاَ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو دھوؤ اور ہاتھوں کو کہنیوں تک اور سر پر مسح کرو اور پیروں کو بھی دھوؤــــ۔ (المائدہ :۶)

اور دوسری قراء ۃ میں (وأرجلکم) اور یہ آیت پیروں پر مسح کرنے اور دھونے دونوں پر دلالت کرتی ہے۔ جو ڈھکے ہوئے ہو۔ اور سنت تو یہی ہے کہ پیروں کو دھویا جائے جب وہ مکشوفہ ہو۔ اور جب مستورۃ ہو تو اس وقت مسح سنت ہے۔ اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ دھونا ہی اصل سنت ہے۔ اور بعض فرماتے ہیں کہ مسح کرنا ہی اصل سنت ہے۔اور صحیح یہ ہے کہ اس کو انسان کے حال پر چھوڑدیا جائے ۔ اور آپنے اپنی موزوں پر مسح کیا ہے ۔ اور مسح علی الخفین میں سے بڑی شرط ہے۔ کہ پہنے جائے جو صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں حضرت مغیرۃ بن شعبہ کی حدیث میں آیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کیساتھ تھا۔ تو میں پیچھے اترا۔ یعنی اترا کہ انکے موزوں کو اتاروں تو ٓآپنے فرمایا کہ چھوڑو میں نے یہ طہارت کی حالت میں پہنے ہوئے ہیں۔

 اور مسائل جن کے بارے میں زیادہ پوچھا جاتا ہے وہ یہ کہ اگر ایک جراب پہنے تو اور اس پر مسح کرے اور پھر دوسرا پہنے تو کیا اوپر والے جراب کے اوپر مسح کرنا جائز ہے؟

جواب:  بعض علماء کے صحیح قول کے مطابق جائز ہے۔ اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس کا حکم پہلے ممسوحہ جراب سے متعلق ہے۔ لیکن جو سامنے آرہا ہے کہ کوئی بات نہیں کر سکتا ہے۔ کہ وہ آخر میں جراب پہنتاہے اوپر والے پر مسح کرنا جائز ہے۔

 اور جو مسح الخفین کی مدت کے بارے میں مسلۂ ہے وہ یہ کہ جمھور علماء نے اس کا وقت مقرر کیا ہے۔ کہ مقیم کے لئے ایک دن رات یعنی صرف پانچ نماز میں نہیں بلکہ ۲۴ گھنٹے۔

اور مدت کب شروع ہوتی ہیں ؟

حدث کے بعد پہلے مسح کرنے سے اور یہی بعض علماء کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ حدث ہوتے ہی مدت شروع ہو جاتی ہے۔اور یہ زیادہ ٹھیک ہے کہ حدث ہوتے ہی مدت شروع ہو ۔اور مسافر کے لیے ۳ دن اور ۳ راتیں ہیں۔

 


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں