×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / التفسير / بغیر طہار ت کے قرآن کو چھونا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3111
- Aa +

قرآن کو بغیر طہارت کے چھونے کا کیا حکم ہے ؟

مس المصحف بدون طهارة

جواب

حامداََ ومصلیاََ

امابعد

آپ کے سوال کا جواب اللہ کی توفیق سے درج ذیل ہے:

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں :(ترجمہ) ’’میں اس جگہ کی قسم کھاتا ہوں جہاں ستارے گرتے ہیں‘‘  ۔’’میں ستاروں کے مستقر کی قسم اٹھاتا ہوں اور اگر تم جانتے ہو تو یہ بڑی عظیم قسم ہے ، کہ یہ قرآن کریم ہے ، جو ایک چھپی ہوئی کتاب میں درج ہے ، اس کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں ‘‘ (الواقعہ: ۷۵۔۷۹)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اورکتاب مکنو ن یعنی لوح محفوظ کو اپنے اسی قول سے پہلے ذکر کیا’’اس کو صرف پاکیزہ لوگ ہی استعمال کریں ‘‘۔

اللہ تعالیٰ کے قول ’’لا یمسّہ‘‘ میں ضمیر بعض اہل علم کے نزدیک قریب ترین مذکور کی طرف لوٹتی ہے جو کہ لوح محفوظ ہے یعنی لوح محفوظ کو صرف ملائکہ ہی چھوئیں جو کہ اس سے قضاء و قدر کے معاملات اخذکرتے ہیں۔

اور دوسرا قول یہ ہے کہ ضمیر قرآن کی طرف لوٹ رہی ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فرمان’’لا یمسّہ الا المطھرون‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھوئیں اور یہ قول ضعیف ہے اور صحیح یہی ہے جس کو اکثر علماء اور اہل تفسیر نے اختیار کیاہے کہ اس قو ل سے مراد ملائکہ ہیں لوح محفوظ کو چھوتے ہیں یعنی چھپی ہوئی کتاب کو صرف مطہرون یعنی پاکیزہ ہی چھوئیں۔

لہٰذا آیت صراحتاََ دلالت نہیں کررہی کہ قرآن کو صرف پاکیزہ ہی چھوئے مگر کچھ اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے آیت میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ چھپی ہوئی کتا ب یعنی لوح محفوظ کو صرف پاکیزہ ہی چھوئیں اور لوح محفوظ میں قرآن بھی ہے لہٰذا یہ اس طرف اشارہ ہے کہ قرآن جو کہ لوح محفوظ میں ہے اس کو صرف پاکیزہ ہی چھوئیں اور یہ خاص نوع کی دلالت ہے جس کو اہل علم دلالت ِ اشاریہ کا نام دیتے ہیں اور یہ واضح طور پر دلالت نہیں لہٰذ ا ایسی دلالت منطوق یا مفہوم سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک خاص نوع کی دلالت ہے جو کہ اشارتاََاس آیت میں پائی جارہی ہے ، ہاں بعض علماء جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن کو صرف طاہر آدمی ہی چھوئے وہ اس آیت سے نہیں بلکہ وجوب طہارت کو مسِّ مصحف کے لئے لازمی قرار دیتے ہیں ۔ نبی کی ہدایت - سے استدلال کرتے ہیں :’’قرآن کوالموطأ (469)، المستدرك (1447)، المعجم الكبير (13039)صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں ‘‘۔

اور یہ حدیث آپ کا خط جو کہ اہل عمر بن حزم کو بھیجا تھا اس میں مذکور ہے اور یہ مشہور خط ہے اور اس کے بارے میں امام ابن عبدالبر مالکیؒ فرماتے ہیں کہ اس خط کو پوری کی پوری امت نے قبول کیا ہے لہٰذا اس کی سند میں کلام سے عَناء حاصل ہوگیا۔

یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس خط میں مذکور ہے وہ سب مقبول ہے اور اسی میں سے آپکا فرمانکہ:’’قرآن کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں‘‘۔ پس جمہور علماء کا یہی مذہب ہے کہ قرآن کو صرف پاک آدمی ہی چھوئے ۔

اور اہل علم میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہ حدیث صراحتاََ دلالت نہیں کررہی کیونکہ آپکے فرمان ’’لا یمسّ القرآن الا طاھر‘‘ میں طاہر سے مراد مسلمان ہے اور اس بات پر استدلال انہوں نے ایک صحیح حدیث سے کیا جب نبینے ابوہریرہ ؓ کے بارے میں پوچھا اور کہا : کہاں تھے تم؟ انہوں نے کہا: میں جنابت کی حالت میں تھاتو میں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ آپ کی مجلس میں بیٹھوں جبکہ میں طاہر نہیں تھا۔ آپنے فرمایا: سبحان اللہ ! ایمان والا ناپاک نہیں ہوتا ‘‘۔( بخاری ۲۸۳  و  مسلم ۸۵۱)

یعنی ایما ن والا طاہر ہے ، پاک ہے ، علماء نے کہا یہ اس بات پر دلیل ہے کہ آپکا فرمان ’’لایمس القرآن الا طاھر‘‘ سے مراد ’’لا یمس القرآن الا مسلم‘‘ ہے یعنی قرآن کو صرف مسلمان ہی چھوئے اور جس مذہب کو اہل علم نے اختیا رکیا ہے اور ائمہ اربعہ کا مذہب بھی یہی ہے اور فقہاء کا قدیم و حدیث مذہب بھی یہی ہے کہ جو بھی قرآن کو چھونے کا ارادہ رکھتاہو اس کو چاہئے کہپ طہارت حاصل کرے اور یہ تب ہے جب اور اق مصحف کو بغیر کسی حائل کے چھونا ہو یہ حروف لکھی گئی جگہ کو یا پھر جو مصحف کا حصہ ہو اس کو جیسے غلاف وغیرہ۔

اور ہونا بھی ایسے ہی چاہئے اس لئے کہ یہی زیادہ بہتر ہے ۔

بعض اہل علم کی ایک جماعت جن میں ظاہریہ ہیں یہ مذہب اپنایا ہے کہ مصحف کو چھونا بغیر طہارت کے بھی جائز ہے لہٰذا انسان کو چاہئے کہ بغیر طہارت کے نہ چھوئے اور اگر کبھی ضرورت پڑھ جائے تو کسی کپڑے وغیرہ سے کی حائل بناکر چھوئے جیسے اپنے کپڑے سے یارومال سے یا دستانہ وغیرہ کے ساتھ ۔کیونکہ بغیر طہارت کے مس کرناغیر مناسب ہے اور طہارت سے مقصود ہے کہ وضو کیاہو اور یہ أولی ہے کہ اگر حدث اکبر یعنی جنابت حیض وغیرہ لاحق ہو تو اس کو بھی رفع کردیاجائے


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں