×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / التفسير / حائضہ عورت کا قرآن پڑھنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3406
- Aa +

حائضہ عورت کا قرآن کی تلاوت کرنے کا کیا حکم ہے ؟

قٌراءة الحائض للقرآن

جواب

امابعد

یہ حکم خاص طورپر رمضان سے متعلق نہیں بلکہ اختلاف حائضہ کے تلاوت کرنے میں رمضان اور غیر رمضان دونوں میں مطلقاََ ہے اور اسی مسئلہ میں اہل علم کے تین اقوال ہیں:

پہلا قول:  مطلقاََ ممانعت کا ہے ، اور وہ یہ کہ حائضہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ کچھ بھی تلاوت کرے قرآن کریم میں سے اور دلیل کی بنیاد اسی آیت کو بنایا ہے :’’نماز کے قریب بھی نہ ہو اس حالت میں کہ تم نشے میں ہو یہاں تک کہ تمہیں علم ہونے میں لگے کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور نہ ہی خیانت کی حالت میں مگر یہ کہ راستہ عبور کرنے کے لئے ، یہاں تک کہ تم غسل کرو‘‘۔ (النساء:۴۳)

لہٰذا حائضہ کو جنبی کے ساتھ لاحق کیانماز کی ممانعت کے اعتبار سے کیونکہ نماز میں قرأت ہوتی ہے اور نماز کی جگہ سے ممانعت گویا کہ قرأت سے بھی ممانعت ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ حائضہ کو قرأت قرأن سے منع کرنے کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں لہٰذا ہم کہیں گے کہ حائضہ قرآن کی تلاوت کرے گی اور جس نے حائضہ کا قیاس جنسی پر کیاقرأت کی ممانعت کے بارے میں تو ایسا قیاس قابل توجہ نہیں ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حائضہ جنبی سے متعدد جہات سے وہ مختلف ہے۔

پہلی جہت:  حائضہ کا حدث غیر اختیاری ہوتاہے برخلاف جنبی کے کیونکہ اس کا حدث غالباََ اختیاری ہوتاہے ۔

دوسری جہت:  حائضہ کے لئے ممکن نہیں کہ حدث کو رفع کرسکے جبکہ جنبی غسل کے ذریعہ حدث رفع کرسکتاہے ۔

تیسری جہت:  حائضہ کے لئے اللہ کا ذکر اور عمل صالح کے بارے میں استحباب وارد ہواہے ، نبینے عائشہؓ سے فرمایاجیسا کہ صحیحین میں آیاہے :’’وہ کچھ کرو جو حاجی کرتاہے مگر یہ کہ بیت اللہ کا طوا ف نہ کرو‘‘۔ اور نبینے حائضہ کا عورتوں کو حکم دیا کہ وہ نماز عید کے لئے نکلیں اور نماز و دعا کا مشاہدہ کریں ۔ اور یہ دونوں حکم جنبی کے بارے میں نہیں آئے کیونکہ نہ اس کو ذکر کے لئے کہا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اور ایسا مطالبہ کیا گیا ہے بلکہ اس سے تو یہ مطالبہ کیاگیاہے کہ وہ جتنا جلدی ہوسکے اپنے حدث کو زائل کرے ۔ اور یہ تمام فرق حائضہ کو جنبی کے ساتھ لاحق کرنے میں مانع نہیں ہیں ۔ لہٰذا صحیح طور پر حائضہ کو قرأت قرآن سے منع کرنے میں اہل علم کے کوئی قول نہیں ، اگر چہ جمہور علماء ممانعت کے قائل ہیں مگر جنبی پر قیاس کے علاوہ کوئی دلیل موجودنہیں اوراگر دلیل قیاس ہی ہوتی ہے تو ہم نے دونوں کے درمیان فرق بیان کردیا ہے لہٰذا قیاس کارآمدنہیں ہوگا۔ کیونکہ جنبی کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ کیا یہ قرأت کرسکتاہے یا نہیں ؟ بنیادی دلیل اس میں علیؓ کی حدیث ہے کہ نبیکوکوئی چیز بھی قرآن سے نہیں روکتی سوائے جنابت کے ۔علماء کی ایک جماعت نے اسی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ، لہٰذا اگرچہ جمہور اسی بات کے قائل ہیں کہ جنبی قرآن نہیں پڑھے گااور یہی قول صحیح ہے لیکن حائضہ کو جنبی سے ملحق کرنا ٹھیک نہیں۔

اور اہل علم کے دونوں قول میں سے صحیح یہ ہے کہ حائضہ قرآن پڑھے گی مگر مصحف کو نہیں چھوسکتی۔اور اس میں رمضان اور غیر رمضان کاکوئی فرق نہیں کیونکہ حائضہ عمل صالح زیادہ کرنا چاہے گی اور ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ اس کو کسی چیز سے بغیر حجت و برہان کے روکیں ۔ لہٰذا اگر کسی نے دوسرے کو عمل صالح سے روکا تو اس کے لئے جائز نہیں کہ بغیر واضح حجت کے منع کرے ۔ اس بنیاد پر اس کے لئے یہ جائز ہے کہ قرأت قرآن کرسکتی ہے چاہے اپناحفظ برقرار رکھنے کے لئے تلاوت کرے ، یا رمضان میں قرآن ختم کرنے کے لئے یا اس کے علاوہ کسی اور سبب کے تحت ۔ اوریہی قول زیادہ أصح ہے ۔ واللہ أعلم۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں