×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نماز / ایک مسلمان کے لئے کب مسنون ہے کہ وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2338
- Aa +

ایک مسلمان کے لئے کب مسنون ہے کہ وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ؟

متى يسن للمسلم أن يرفع يديه للدعاء؟

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب یہ دیتے ہیں:

دعا میں ہاتھوں کا اٹھانا عام آداب میں سے ہے اور اس میں کئی احادیث وارد ہیں باقی جمعہ کے خطبہ میں حالتِ دعا میں خطیب کے لئے ہاتھوں کا اٹھانا مشروع نہیں ہے بلکہ صرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کافی ہے جیسا کہ امام مسلم ؒ نے عمارہ بن روبیہ سے روایت کی ہے کہ جب انہوں نے بشر بن مروان کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایاکہ:’’میں نے آپ ﷺکو دیکھا کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے کچھ کہتے ہوئے اس پر زیادتی نہیں فرمائی (یہ کہہ کر) اپنی شہادت والی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا‘‘۔اور یہی جمہور علماء میں سے مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ وغیرہ کا مذہب ہے ۔باقی خطیب کے علاوہ کوئی اور ہو تو وہ اس کے تابع ہے جہاں خطیب کے لئے دعا میں ہاتھ اٹھانا مشروع ہو تو اس کو سننے والے کے لئے بھی مشروع ہوجائے گا اس لئے کہ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ :’’آپﷺنے دستِ دع​​ا بلند کئے تو آپ علیہ السلام کے ساتھ سب لوگوں نے بھی دستِ دعا بلند کرلئے ‘‘۔باقی فرض نمازوں کے بعد دستِ دعا بلند کرنا ایک نئی گھڑی ہوئی رسم ہے اس لئے کہ ذکر ودعا کے لئے مشروع محل سلام سے پہلے ہے ۔

آپ کا بھائی

خالد بن عبد الله المصلح

11/11/1424هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں