×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نماز / اک شخص نفسانی خواہش کے لئے نماز چھوڑتا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2478
- Aa +

یہاں ایک عورت ہے جس کا سوا ل یہ ہے کہ : اس نے (الحمد للہ ) ایک اجارہ دار آدمی سے شادی کرلی ہے اور اس کی شادی کو ایک ماہ سے کم عرصہ ہوا ہے لیکن اب ایک مسئلہ ہے کہ بسااوقات جب مؤذن اذان دیتا ہے اور وہ اپنے شوہر کو اس کے نہ چاہنے کے باوجود بھی اسے بھاری نیندسے اٹھانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ کبھی تو جماعت کے فوت ہوجانے کے بعد اٹھ جاتاہے یا کبھی کبھی جب اٹھتا ہے تو عین نماز کے وقت اسے جماع کی چاہت ہوتی ہے تو اس طرح اس کی نماز جب فوت ہوجاتی ہے تو وہ گھر میں ادا کرلیتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس حال میں نماز کی کی فوتگی پر گناہگار ہوگا؟ اور اگر بیوی خاوندکا کہنا مان کر ایسا کرے تو اس پر کیا آئے گا؟

يترك صلاة الجماعة لثوران شهوته فما حكمه

جواب

اما بعد۔۔۔

اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب یہ دیتے ہیں:

آپ کو چاہئے کہ اس کو نماز کے اٹھانے اور نصیحت کرنے میں اپنے آپ کو خوب ہلکان کریں اگر اس کے باوجود بھی آپ اس کو اٹھا نہ پائیں تو پھر آپ پر کوئی گناہ نہیں ، اور ساتھ ساتھ اس کو یہ نصیحت بھی کریں کہ وہ نیند سے جلدی اٹھنے کے اسباب اختیارکرے اور آئندہ نماز کو قائم کرنے کے لئے پختہ عزم کرے اور نماز باجماعت ادا کرنے کی فضیلت اور اس پر جو اجروثواب ملتا ہے اس سے بھی اچھی طرح باخبر ہوجائے ۔ باقی رہی اس کی نماز کے وقت اپنے جذبات کے آتش فشاں کوٹھنڈا کرنے کی بات تو یہ ایک واقعی ایسا شرعی عذر ہے جس کی وجہ سے اس کے لئے نماز کا مؤخر کرنا جائز ہے جیسا کہ امام مسلمؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا:’’ جب کھانا حاضر ہو اور قضائے حاجت (چھوٹے بڑے پیشاب) کی ضرورت ہو تو اس وقت نماز نہ پڑھو‘‘۔اور آپ کی یہ ذکر کردہ بات رسول اللہکے ذکرکردہ فرمان کے معنی میں ہے اس لئے کہ اس میں بھی عدمِ فراغت اوراشتغالِ قلب لازم آتا ہے ۔لہٰذا اس لئے اللہ کے رسول نے انسان کو ان دوحالتوں میں نماز پڑھنے سے روکا ہے اس لئے کہ ان دو حالتوں میں نماز کی طرف دھیان کی بجائے دل کہیں اور مشغول ہوتاہے اور یہ دو نوں حالتیں نماز کو کامل طریقے سے پڑھنے کے بجائے اس میں جلدی کرنے اور اس میں خلل کا سبب بنتے ہیں ۔ ابودرداء ؓ فرماتے ہیں کہ: ’’ زیرک و دانا کی علامت یہ ہے کہ وہ پہلے اپنی حاجت پوری کرے پھر اس کے بعد (تمام جھمیلوں سے فارغ ہوکر )خالی دل کے ساتھ نمازپڑھے‘‘۔

آپ کا بھائی

خالد بن عبد الله المصلح

11/11/1424هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں