شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
بہت سے ایسے پریشان کُن حالات ہیں جس نے عام و خاص اور دیندار و دنیادار ہر قسم لوگوں کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اُن کی زندگی کو بے لُطف و بے کیف بنا کے رکھ دیا ہے بلکہ یہ کہنا ہوگا کہ اُن حالات پریشان نے اُن کا راستہ رو کے رکھا ہے۔
الغرض انسانی زندگی طرح طرح کی پریشانیوں سے بھری پڑی ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’اور ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے‘‘۔ (البلد: ۴) یعنی انسان اپنی زندگی میں جا بجا تنگیوں کو جھیلتا ہے اور اس سے کوئی بھی فردِ بشر خالی نہیں ہے۔
ایک شاعر کہتا ہے :
کل من تلقاہ یشکو دھرہ*** لیت شعری ھذہ الدنیا لمن ؟
ترجمہ: جس سے بھی ملو وہ دنیاوی تنگیوں کا گِلہ کرتا ہے، کاش میں یہ جان لو کہ آخر یہ دنیا کس کی ہے ؟۔
اور لوگ اس فطرت زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے معاملے میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں: کوئی تو ان دنیاوی مشقتوں اور تکالیف و مصائب کا ایسا قیدی بن جاتا ہے کہ وہ مصائب اس کو اپنے گرفت میں لیتے ہیں تو وہ سرتاپا ان میں جکڑ کر مثلِ اسیر ہو جاتا ہے، اور یہ اکثر لوگوں کا حال ہے۔ اور کوئی ان میں کچھ اسباب اور وسائل کے زریعے ان مصائب کی کڑیوں کو کھولنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور پھر وہ اسباب و وسائل اس پر وہ مشقتیں آسان کر دیتے ہیں اور پھر اس پر مصیبتوں کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ اور ان اسباب و وسائل میں سب سے آسان و سہولت پزیر سبب اور وسیلہ یہ ہے کہ دل نیک فال سے لبریز ہو جائے اور روشن امید سے بھر جائے اس لئے کہ نیک شگون اور روشن امید دل کے اس حصے کو دوبارہ وسیع کر دیتے ہیں جسے تکالیف و مصائب نے تنگ کیا ہوا ہوتا ہے۔
ایک شاعر کہتا ہے:
اعلل النفس بالآ مال أرقبھا*** ما أضیق العیش لولا فسحۃ الأمل
ترجمہ:امیدوں کے ذریعے میں دل کو بہلاتا ہوں اور اس کی حفاظت کرتا ہوں اس لئے کہ زندگی امیدوں کے بغیر بہت ہی تنگ لگتی ہے۔
آپﷺ بھی نیک شگون پسند فرمایا کرتے تھے، جیسا کہ بخاری اور مسلم شریف میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’مجھے نیک فال یعنی نیک بات پسند ہے‘‘۔
اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، اس لئے کہ نیک شگون اس طاقتور کشتی کی طرح ہے جو نامعلوم مستقبل کی لہروں اور موجوں کو چیر دیتی ہے اور شگون آنے والے خیر کی خوشخبری دیتا ہے اور پوری ہونے والی امید کا نظارہ دکھلاتی ہے۔
آپﷺ کو نیک شگون اس لئے پسند تھا کہ نیک فال اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے اور اللہ کی رحمت و سخاوت کا ثمرہ ہے۔
ایک شاعر کہتا ہے:
وانی لأرجو اللّٰہ حتی کأنّی*** أری بجمیل الظنّ مااللّہ صانع
ترجمہ: میں اللہ کے ساتھ اپنے اچھے گمان کی بدولت گویا اللہ تعالیٰ کے ہر کرنے والے فیصلے کو دیکھ رہا ہوں۔
آپﷺ کو نیک شگون اس لئے بھی پسند تھا کہ نیک شگون سے شرح صدر ہو جاتا ہے اور دلوں کو راحت مل جاتی ہے، لہٰذ نیک شگون انسان سے اس کا غم دُور ہونے اور اس کی خوش بختی کے اسباب میں سے ہے اسی لئے تو فال لینا روحانی اور جسمانی صحت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔
آپﷺ کو نیک شگون اس لئے بھی پسند تھا کہ نیک شگون ایک روحِ رواں کی طرح ہے جو انسان کو عمل پر ابھارتا ہے، اور محنت و کوشش کے دائرے کو کھولتا ہے تا کہ انسان اپنے تمام مقاصد کو پا لے اور منزلِ مقصود تک پہنچ جائے، لہٰذا فال لینا اور امید رکھنا یہ دونوں عمل کی سیڑھی ہے، اور عجز و سستی جیسے امراض کی دوا ہیں۔
ایک شاعر کہتا ہے:
ومن علقت نیل الأمانی ھمومہ*** تجشم فی آثارھا المطلب الوعرا
ترجمہ: جیسے اپنے آرزؤں پانے کا غم لگ جائے تو پھر وہ اس کی طلب میں سخت سے سخت مصیبت بھی برداشت کر لیتا ہے۔
مثال کے طور پر فال لینا معاشی سرمایا کاری کے نظام میں ایک سربراہ و نگران کی طرح کی طرح ہوتا ہے اسی لئے علمِ معاشیات کے ماہرین اپنے حسابات میں لوگوں کے فال لینے کے بقدر اس میں سرمایا کاری کے رجحان کو رکھتے ہیں اس لئے کہ یہ انفاقی طرزِ عمل کی حد بندی کرتا ہے ایک فردِ بشر کے لئے بھی اور پورے معاشرے کے لئے بھی۔
آپﷺ کو نیک شگون لینا اس لئے بھی پسند تھا کہ نیک شگون کے ذریعے انسان ماضی کی قید و ناکامی اور لغزشوں سے آزاد ہو جاتا ہے، اور حال کی سختیوں اور مشقتوں اور شدائد سے اس کی گلو خلاصی ہو جاتی ہے، اور اس طرح اس کا خوف دُور ہو جاتا ہے اور اپنی ضرورت کو پانے کی امید بڑھ جاتی ہے۔
ایک شاعر کہتا ہے:
اذا ازدحمت ھمومی فی فؤادی *** طلبت لھا المخارج بالتمنی
ترجمہ: جب میرے دل میں غموں کا سمندر موجزن ہوتا ہے تو پھر میں تمناؤں اور امیدوں کے ذریعے اس سے نکل جاتا ہوں۔
آپﷺ نے واقعی اپنی زندگی میں نیک شگونی کی وضاحت فرمائی ہے کہ جتنی بھی بڑی مصیبت ہوتی جتنی بھی بڑی پریشانی ہوتی تو وہ آپﷺ کو اپنی منزلِ مقصود کی طرف گامزن ہونے سے نہیں روکتی تھی اور آپﷺ کی تمام مراحلِ زندگی میں یہی حال تھا۔
آپ خود غور کریں جب مکہ میں کفار نے صحابہ کرامؓ کو انتہا درجے کی اذیت دی اور ان کا محاصرہ کیا اور طرح طرح کی دھمکیاں دی اور صحابہ کرامؓ نے آپﷺ سے ان مصائب کا گِلہ کیا تو آپﷺ نے اس وقت بھی اپنے جانثار صحابہ سے یہی ارشاد فرمایا کہ ’’بخدا اللہ تعالیٰ اس امرِ دین کو پایہ تکمیل تک ضرور پہنچائے گا (اور تم عنقریب دیکھوگے کہ) مقامِ صنعاء سے مقامِ حضر موت تک ایک سوار تنِ تنہا سفر کرے گا اور اللہ کے سوا نہ تو اسے خود اپنے متعلق کسی سے خوف ہوگا اور نہ اپنی بھیڑ بکریوں کے متعلق کسی بھیڑے کا ڈر ہوگا، لیکن تم ہو کہ جلدی مچا رہے ہو‘‘۔
اور ہجرت کے موقع پر آپ دیکھیں کہ چاروں طرف سے مصائب اور خوف ان کو گھیرے ہوئے تھا اور ایسے نازک اور سنگین وقت میں بھی آپﷺ حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ نکل پڑے ہیں اور جب دشمن انکے قریب آگئے تو آپﷺ نے اپنے ہمسفر ابو بکرؓ سے فرمایا: ’’تم غم نہ کرو ہمارے ساتھ اللہ ہے‘‘۔ اس پر اللہ نے بھی اپنے رسول کی تصدیق فرمائی
ترجمہ) ’’پس اللہ نے اپنے رسول پر سکینہ نازل فرمایا اور ایسے لشکروں کے ساتھ ان کی مدد فرمائی جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور جن لوگوں نے کفر کو اپنا لیا تھا ان کے کلمے کو پشت کر دیا اور اللہ ہی کا کلمہ بلند ہو کر رہا اور اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے اور حکمت کا بھی مالک ہے‘‘۔
اسی طرح غزوہ احزاب میں دیکھیں کہ جب کفارِ مکہ نے آپﷺ کا ایسا گھیراؤں کیا جس طرح کنگن ہاتھ کا گھیراؤں کرتا ہے تو آپﷺ نے اس وقت بھی اپنے صحابہ کو شام، فارس اور یمن کے فتح ہونے کی بشارت سنائی۔
کیا ان سب کے باوجود بھی ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم نیک شگون لیں اور اپنی امیدوں کی تکمیل کے لئے دوڑ دھوپ کریں؟
لماذا نتفاءل