×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نماز / نمازِ استخارہ کی صفت اور کیا یہ کسی اور کی طرف سے پڑھی جاسکتی ہے ؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3751
- Aa +

نمازاستخارہ کی کیفیت کیا ہے ؟ اور کیا یہ جائز ہے کہ میں اپنی والدہ کی طرف سے پڑھ لوں ؟

صفة صلاة الاستخارة وهل تصلى عن الغير

جواب

نمازِ استخارہ سنت ہے ۔ اور اس کا وصف یہ ہے کہ : اگر کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو وہ دورکعت نمازِ استخارہ کی نیت سے پڑھ لے اور اس کے بعد دعا کرلے جیسا کہ امام بخاری ؒ وغیرہ نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ آپہمیں تمام امور کے لئے استخارہ اس طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے اس کے بعد فرماتے :’’اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو وہ دو رکعت نفل نماز پڑھے اور پھر یہ کہے :(اللھم انی استخیرک بعلمک و استقدرک بقدرتک و أسألک من فضلک العظیم ، فانک تقد ر ولا أقدر و تعلم ولا أعلم و أنت علام الغیوب۔ اللھم ان کنت تعلم أن ھذا لأمر خیر لی فی دینی و معاشی و عاقبۃ أمری ۔ أو قال عاجل أمری۔ فاقدرہ لی ثم یسرہ لی ثم بارک لی فیہ ۔ و ان کنت تعلم أن ھذا الأمر شر لی فی دینی و معاشی و عاقبۃ أمری ۔ أو قال فی عاجل أمری و آجلہ۔ فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ ، واقدر لی الخیر حیث کا ثم أرضنی بہ)

(ترجمہ)’’ اے اللہ!  میں تجھ سے تیر ے علم کی بدولت تجھ سے خیر کا سوال کرتاہوں اور تیری قدرت کی بدولت تجھ سے خیرمقدر کرنے کی التجا کرتاہوں اور تجھ سے تیر ے فضلِ عظیم کی بدولت سوال کرتاہوں اس لئے کہ توکامل قدرت والا ہے اور میں قدرت والا نہیں ہوں تو کامل علم رکھتا ہے اور میں کچھ علم نہیں رکھتااور توتمام غیبی چیزوں سے اچھی طرح باخبر ہے ۔ اے اللہ!  اگر تیر ے علم میں ہے کہ اس کام میں میرے لئے دین ودنیادونوں کے اعتبار سے خیر ہے تو پھر اسے میرے مقدر میں کردے اور میر ے لئے اسے آسان بنادے اور اس میں میرے لئے برکت عطاء فرما۔ اور اگر تیرے علم میں ہے کہ اس کام میں میرے لئے دین و دنیادونوں کے اعتبارسے شرہے تو پھر اس کو مجھ سے اورمجھے اس سے کوسوں دور فرما اور جہاں کہیں بھی کوئی خیر ہو وہ میرے مقدر میں کردے اورپھر مجھے اس پہ رضامند کردے ‘‘۔ اور اس کے بعد اپنی حاجت اللہ کے سامنے رکھے ۔

اور افضل یہ ہے کہ یہ دعا سلام پھیرنے سے پہلے ہو اس لئے کہ آپاکثر دعائیں سلام سے پہلے کیاکرتے تھے ، اور سلام کے بعد بھی جائز ہے ۔

باقی رہا آپ کا دوسرا سوال کہ کسی اور کی طرف سے استخارہ کرنا تو ا س کے جواز کے بارے میں بعض اہلِ علم نے کہاہے جن میں مالکیہ اور شافعیہ بھی ہیں انہوں نے آپکے اس فرمان سے استدلال کیا ہے :’’جو اپنے مسلمان کو کسی چیز سے نفع پہنچا سکتا ہے تو وہ سے روایت کی ہے ۔عبداللہؓ جابربن کرلے ‘‘۔اس حدیث کو امام مسلمؒ نے اپنی کتاب میں

باقی جو مجھے سجمھ آرہا ہے وہ یہ ہے کہ کسی اور کی طرف سے استخارہ درست نہیں ہے اس لئے کہ آپنے یہ معاملہ صاحبِ معاملہ کے سپرد کیا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی کا م کا ارادہ کرے ‘‘(الحدیث)  لہٰذا اصل یہی ہے کہ انسان اپنی طرف سے استخارہ کرے اور اگر وہ خود اس کا اچھی طرح استطاعت نہیں رکھتا تو پھر امیدہے کہ کسی دوسرے کی طرف سے بھی اس کے لئے کافی ہوجائے گا ، اس لئے کہ یہ سب اپنے مسلمان بھائی کے لئے دعا ہے ۔ باقی رہی کسی اور کے لئے استخارہ کی کیفیت کی بات تو اس کی کیفیت کسی اور کی طرف سے بھی مختلف نہیں ہے  (یعنی جیسااپنے لئے کرتا ہے ویسا کسی اورکے لئے کرے)۔ واللہ أعلم۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں