حق تعالیٰ شانہ نے حضرت محمد ﷺکو قیامت سے پہلے پہلے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بشیر اور نذ یر بنا کر بھیجا، اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو اس لئے مبعوث فرمایا تا کہ آپﷺلوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’وہ رسول جو تمہاے سامنے اللہ کی روشن کرنے والی آیات تلاوت کرتا ہے تا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اللہ اس کو ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے ایسے شخص کے لئے اچھے رزق کا بندوبست فرمایا ہے‘‘(الطلاق:۱۱)۔
یہ بات قابلِ تعجب نہیں ہے کہ اللہ کے رسولﷺجس شریعت کو لے کر آئے ہیں اس سے مقصود اخلاق کی درستگی اور خصائلِ حمیدہ کی تکمیل ہے، امام احمدؒ نے حدیث (۹۳۹۸) میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا: ’’مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے ہی بھیجا گیا ہے‘‘۔ اور حاکم کے نزدیک بھی ایک روایت (۱۲۲۴) میں ہے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا: ’’مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے ہی بھیجا گیا ہے‘‘ ۔
بس اخلاق کی درستگی ان نمایاں اوصاف میں سے ہے جس کی طرف اللہ کی رسولﷺنے دعوت دی، اور اسے اللہ کے نبی کی دعوت کو پہچاننے والا ہر شخص پا سکتا ہے اس لئے کہ اخلاق کی درستگی ہی اسلام کی دعوت میں سب سے بڑا عنوان ہے، امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کے حدیث (۱۶۸۳) میں روایت کی ہے کہ حضرت ابو ذرؓ نے اسلام لانے سے پہلے اپنے بھائی کو آپﷺکے خبر سے آگاہی کے لئے بھیجا تا کہ وہ جا کر دیکھ لے کہ محمد کیا بات کرتا ہے؟ جب وہ آپﷺکے خبر کو ساتھ لے کر واپس لوٹا تو حضرت ابو ذرؓ سے کہا کہ: ’’ میں نے محمد کو مکارمِ اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھا‘‘۔
دینِ اسلام اس لئے اپنے تمام عقائد و احکام کے ساتھ ظہور پذیر ہوا تا کہ تمام بنی نوع آدم کو سبک رفتاری اور پُھرتی سے تمام رذائل سے نکال کر تمام فضائل کی طرف لے کر آئے، پس محاسنِ اخلاق نوافلِ قربات میں سے نہیں بلکہ یہ تمام طاعت کی جڑ ہیں، اور یہی محاسنِ اخلاق کی طرف چلنے کے راستے میں ایک بلند مقام بنا لیتے ہیں، امام بخاریؒ نے حدیث (۵۳۰۶) میں اور امام مسلمؒ نے حدیث (۱۲۳۲) میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے نقل کیا ہے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ’’تم میں سب سے بہتر تم میں سب سے اچھے اخلاق والا ہے‘‘۔ پس جتنے آپ کے پاس اچھے اخلاق ہیں اسی کے بقدر دینِ صحیح میں سے آپ کا نصیب بلند ہوتا جائے گا، اس لئے کہ دین سارے کا سارا اچھے اخلاق کا نام ہے، پس جو آپ سے اخلاق میں آگے بڑ گیا وہ آپ سے دین میں بھی آگے بڑھ گیا۔ اور اس بات پر امام احمدؒ کی حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کردہ حدیث بھی شاہد ہے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تمام مؤمنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہی شخص ہے جو ان میں سب سے اچھے اخلاق والا ہو‘‘۔ حضرت فضیل ؒ فرماتے ہیں: ’’جس کے اخلاق خراب ہوگئے اس کا دین بھی خراب ہو گیا‘‘۔
پس محاسنِ اخلاق کی تکمیل کے بغیر آدمی کا د ین ناقص ہے، اور آدمی جب مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے میں درستگی کرتا ہے تو پھر ان کو خیر پہنچاتا ہے اور ان سے شر کو دُور کرتا ہے۔
اور ان کے ساتھ احسان کرنے میں جلدی کرتا ہے۔ اور آپﷺکی تاکید کرنا اور دینِ صادق کے کمال کے ساتھ حسنِ خُلق کا جوڑا ہونا اس کے بارے میں کئی احدیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے ایک حدیث (۷۸۷۹) امام احمدؒ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی روایت کی ہے کہ: ’’جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا‘‘۔ اب جس شخص کی بھی یہ عادت و طبیعت ہو کہ وہ لوگوں کی نعمتوں اوران کی بھلائیوں پر ان کا شکر ادا نہیں کرتا تو عنقریب اللہ کی نعمتوں اور شکر میں بھی اس کی یہی عادت بن جائے گی، اور یہ بات قابلِ تعجب نہیں ہے کہ ایک ایمان والا اپنے اچھے اخلاق کی بدولت دن بھر روزہ رکھنے والے اور رات بھر نفل پڑھنے والے کے درجے کو پا سکتا ہے، جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے حدیث میں نقل کیا گیا ہے۔
اِک شاعر کہتا ہے: ’’اگر مجھے ہر قسم کی فضیلت اختیار کرنے کا موقع میسّر ہو جائے تو میں مکارمِ اخلاق کے سوا کچھ نہیں اختیار کروں گا‘‘۔
محاسنِ اخلاق کی خوبصورتی اور رونق اس کی تعداد، اسکے فضائل کو ذکر کرنے اور اس کو سراہنے اور اس کے اہل پر منحصر نہیں ہے بلکہ مکارمِ اخلاق کی اصل خوبصورتی تو اس پر عمل کرنے میں ہے، اور اس کا جمال لوگوں کے اخلاق اور معاملات میں حقیقی طور پر ترجمانی کرنے میں ہے، بہت سے لوگ محاسنِ اخلاق سے جھوم اٹھتے ہیں، تو فیاضی اور کشادہ دلی ان کو تعجب میں ڈال دیتی ہے اور جود وسخا ان کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں، اور وہ صبر و بردباری، نرمی و تحمل مزاجی، شجاعت و دلیری، حسنِ جوار اور صلہ رحمی، وعدہ کی پاسداری اور سچ گوئی اور اس کے علاوہ اور بھی نیک اور اچھے اعمال کی وہ تعریف کرتے ہیں، لیکن کتنے زیادہ ہیں وہ لوگ جن کا حصہ ان اخلاق میں سے عجب و فخر اور تعریف پر منحصر ہوتا ہے۔
کتنے ایسے لوگ ہیں جن کو یہ معلوم ہے کہ جو دوسخا تعریف کا سبب ہے لیکن وہ مال کو ختم کر دیتا ہے۔
ہم زبان سے جو دوسخا کی تعریف تو بہت سنتے ہیں لیکن فعل سے بخل کو اس پر ترجیح دیتے ہیں، باتوں کے ذریعے تو فیاضی کی بزرگی سنتے ہیں لیکن عمل کے ذریعے اسے چھوڑ تے ہیں، تمام اوصافِ حمیدہ کے بارے میں سنتے ہیں لیکن کرنے میں سب معطّل کر دیتے ہیں۔
کسی کہنے والے نے سچ ہی کہا ہے : ’’جو دوسخا فقیر بنا دیتی ہے اور پیش قدمی قتال ہے‘‘۔
ہم تو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم اپنے حقیقی اعمال میں اچھے اخلاق کی ترجمانی کریں، اور مکارمِ اخلاق سے آراستہ و پیراستہ ہونے سے اپنے آپ پر غالب آجائیں اور تمام رکاوٹیں دور کریں، ہماری روش اور سلوک کے لئے یہ ہم سے خوب جانچ پڑتال کا مطالبہ کرتا ہے، اور ہمارے معاملات میں ہم سے چشمِ بینا، اور عملِ پیہم اور تقویم و تصحیح اور ان مکارمِ اخلاق اور خصائل حمیدہ کے ادراک کے لئے عمل کی ہمیشگی طلب کرتا ہے۔
ایک شاعر کہتا ہے: اگر وہ اپنے نفس پر اس کے ظلم و ستم اور ذلت کو محمول نہیں کرے گا تو پھر تعریف حاصل کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں۔
ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنے اور اپنے ارد گرد بیشتر اختلافات کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور اخلاق کریمہ اور خصائلِ حمیدہ کی بہت زیادہ خلاف ورزی دیکھتے ہیں اور میرا پختہ دعویٰ ہے کہ وہ ساری خلاف ورزیاں فضائل سے نا آشنائی اور مکارمِ اخلاق سے کم علمی کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی سستی کی وجہ سے اور ان اعمال حسنہ پر اپنے نفس کو نہ آمادہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
(اے اللہ ہمیں سیدھی راہ سُلجھا اور ہمیں ہمارے نفوس کے شرور سے بچا)
العبادة الغائبة