×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / الحديث / احادیث صحیحہ کو رد کرنے کے لئے حضرت عمر ؓ کے قول سے استدلال کرنا۔

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2056
- Aa +

جناب میرا سوال یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ فاطمہ بن قیس کی جس حدیث کو رد کیا ہے اس سے استدلال کرنا جائز ہے کہ جس عورت کو تین طلاقیں ہو جائے تو نہ اس کو رہائش دی جائے گی اور نہ نان نفقہ؟ اور ان کا یہ کہنا کہ ہم اللہ کی کتاب میں کسی عورت کے قول کے لئے کوئی آیت رد نہیں کریں گے اس لئے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اسے یاد ہے یا بھول گئی ہے۔ جیسا کہ دور حاضر کے بہت سے لوگ احادیث صحیحہ بلکہ متواتر تک کی رد کرتے ہیں کہ وہ ان کے دعویٰ کے مطابق ان کو قبول کرنے سے پہلے ان کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے اور ان کے معانی اور اسباب نزول میں وغیرہ میں خوب غور و خوض کرنا چاہیے جو کہ بہت سی سنتوں کے ضائع ہونے کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات تو بعض ان میں ضعیف اور موضوع احادیث کو قبول کر لیتے ہیں جبکہ اپنے مذکورہ قاعدہ کی بنیاد پر احادیث صحیحہ کو رد کر دیتے ہیں۔وضاحت کا خواستگار ہوں۔

الاحتجاج بقول عمر لرد الأحاديث الصحيحة

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

ایسی تشبیہات جن میں احکام شریعت میں تخفیف اورحلت ہوتا ہے ان سے مقصود صحابہ کرام اور امت کے سلف صالحین کے اس عظیم عمل کا بیان کرنا ہوتا ہے کہ وہ آپکی بہت زیادہ تعظیم اور احترام کیا کرتے تھے، اور کہ یہی ان کا راستہ ہے جس پر وہ گامزن تھے اور جو اس کے مخالف آیا ہے تو وہ ایسے امور ہیں جن کے کچھ احوال و کیفیات اور متعلقات ہیں اور سب تحقق کے بعد ان سے ثابت ہے، اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ نصوص شرعیہ یعنی قرآن وسنت کے فہم میں تعارض کا وہم صحابہ کرام کے زمانہ میں رونما پذیر ہوا بلکہ صحابہ کرام کو جب اس بارے میں اشکال ہوا تو انہوں نے اس بارے میں اللہ کے رسول سے سوال کیا تو اللہ کے رسول نے ان کے اس سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔

اور یہ بات روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب دو نصوص میں اس طرح تعارض آجائے کہ اس میں تطبیق و نسخ ممکن نہ ہو تو پھر ان میں ایک کو راجح اور دوسرے کو مرجوح قرار دیا جاتا ہے اور عمر ؓ سے نقل کردہ اس مسئلے میں انہوں نے یہی کیا ہے۔ باقی امام احمد ؒ نے اس حدیث کو ضعیف و منکر قرار دیا ہے جو عمرؓ سے اس بارے میں منقول ہے کہ ہم اپنے دین میں کسی عورت کے قول کو جائز نہیں قرار دیں گے۔ بہر کیف ! جن کے دلوں میں کفر و نفاق کا روگ رچا بسا ہے ان کے عمل کو ان لوگوں کے عمل پر قیاس نہیں کیا جاسکتا جن کے دلوں میں ایمان پختہ و راسخ ہو چکا ہو اور ان کو ہدایت کے دولت سے بھی مالا مال کیا گیا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: جن لوگوں کے دلوں میں کجی اور ٹیڑھا پن ہے وہ مشتبہ چیزوں کی اتباع کرتے ہیں، (آل عمران: ۷)۔

اے اللہ ! ہمیں سیدھی راہ دکھا اور ہمیں ہمارے نفوس کی شرور سے بچا۔ آمین


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں