×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / الحديث / لا شؤم الافی ثلاث) والی حدیث کا معنی

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:5604
- Aa +

لا شؤم الافی ثلاث) والی حدیث کا کیا معنی ہے؟)

معنى حديث لا شؤم إلا في ثلاث

جواب

اما بعد۔۔۔

ان تین چیزوں کے بارے میں بہت سی احادیث میں وارد ہوا ہے جن میں امام بخاریؒ نے (۲۸۵۸) میں اور امام مسلمؒ نے (۲۲۲۵) میں امام زہری کے طریق سے حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ آپنے ارشاد فرمایا:  ’’نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے، گھوڑے ، عورت اور گھر میں‘‘۔

امام بخاری کی ایک دوسری روایت (۵۰۹۴) میں حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ  ’’اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو گھر، عورت اور گھوڑے میں ہوتی ‘‘۔ اس حدیث کو امام بخاری نے (۵۰۹۵) میں اور امام مسلمؒ نے (۲۲۲۶) میں حضرت مالک اور ابو حکیم کے طریق سے حضرت سھل بن سعدؓ سے روایت کی ہے۔

اہلِ علم کے اس میں کئی اقوال ہیں:  لہٰذا اہلِ علم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں واقعی کسی چیز میں نحوست کے موجود ہونے کے بارے میں نہیں بتایا گیا بلکہ یہ تو محض ایک خبردی ہے کہ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ نے کسی چیز میں نحوست پیدا کی ہوتی تو ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی اس اعتبار سے ان تین چیزوں میں نحوست کا اثبات نہیں ہے۔

اور بعض کا یہ کہنا ہے کہ ان تین چیزوں کی طرف نحوست کی اضافت کرنا مجازی طور پر ہے اور اس کا مطلب ہے کہ نحوست اصل میں ان چیزوں سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھی اس کے قریب قریب ہوتی ہے۔

ایک قول یہ ہے کہ گھر میں نحوست سے مراد بدترین پڑوسی ہے، اور عورت میں نحوست سے مراد اس کا بانجھ ہونا ہے اور گھوڑے میں نحوست سے مراد اس پر جہاد نہ کرنا ہے۔

اور بعض کا یہ کہنا ہے کہ یہ اس حدیث میں سے ہے جس میں نحوست کی نفی ہے جیسا کہ پیچھے مذکورہ ابن عمر اور ابو ہریرہؓ کی روایات میں امام بخاریؒ نے (۵۷۵۵) میں اور امام مسلمؒ نے (۲۲۲۳) میں امام زہری کے طریق سے عبد اللہ بن عبد البر بن عتبہ سے روایت کی ہے کہ آپنے ارشاد فرمایا:  برے شگون کی کوئی حقیقت نہیں اور اس میں بہتر فال نیک ہے۔

اور بعض نے کہا ہے کہ ان چیزوں میں شگون لینے کی نحوست اسی شخص پر پڑے گی جو اس کو منحوس جانے گا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہیں کرے گا اور جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے گا اور صدقِ دل سے اس کی طرف مائل ہوگا تو پھر یہ اسے کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا۔

اور بعض کا یہ کہنا ہے کہ نحوست میں سے مثبت کی نفی نہیں ہے بلکہ نفی تو اس نحوست کی ہے جو خود اس کی ذات میں موجود ہے، باقی مثبت چیز کی بات ہے تو وہ بھی کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا ہے تو اپنے مالک کے لئے نحوست کا سبب بن کر اس کی طرف نقصان لے کر آتی ہے یہی آخری معنی ہے جو امام مالکؒ کا قول ظاہر ہے۔

اہلِ علم نے اس میں بہت طویل بحث کی ہے لیکن سب سے وسیع وہی قول مجھے نظر آیا ہے جس کو ابن القیمؒ نے مفتاحُ دارالسعادۃ میں (۲۵۴)  ذکر کیا ہے، اور حافظ بن حجرؒ نے فتح الباری میں (۶/۶۰-۶۳) ذکر کیا ہے اور ابن عبد البرؒ نے تمھید میں (۲۷۸/۹) ذکر کیا ہے اور ان سب نے جو بھی ذکر کیا ہے ان کا جواب پیچھے ہمارے مذکورہ و منقولہ جواب میں موجود ہے۔

باقی ان سارے جوابات میں سب سے زیادہ أقرب الی الصواب جواب مجھے یہ لگتا ہے کہ شگون لینے کی نفی کے بارے میں عدم منافاۃ کی جو خبر دی گئی ہے اور عورت، گھوڑے اور گھر کی طرف جس نحوست کی اضافت کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تین چیزوں میں نحوست اور کمی و نقصان اللہ تعالیٰ کے فیصلہ و منشأ کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ ان چیزوں کی وجہ سے اس لئے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشأ کے مطابق  ہوتی ہے اس لئے یہ وہم درست نہیں ہے کہ نحوست کا منبع و سبب یہی چیزیں ہیں جب اس سے کوئی ناگوار امر واقع ہو جائے۔  باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں